تصویر

تاکن – مصنف :کاشف علی عبّاس (5+Takin by Kashif Ali Abbas- (1+2+3+4

6 اکتوبر

Takin2

(نوٹ : ناول کا  5 حصہ آج اسی پوسٹ کے اختتام پر  شائع کر دیا گیا ہے ، پوسٹ کے آخر میں پڑھیں  )

””تاکن””’
*************

کچھ ایک ناول ‘ تاکن ‘ کے بارے میں
————————————-

اردو ادب کی ترویج کے لیے کچھ ذمے داری ہماری اتنی سی ہے کہ کسی بھی پلیٹ فارم سے شائع ہونے والےنیے ناول کو پڑھیں ، اور اردو ادب کو زندہ رکھیں -پڑھنے والے لوگ موتیوں سے کم نہیں –

‘ کاشف کا ناول ””’تاکن ”’بھی اسی حسین احساس کی غمازی کرتا ہے – مخفی علوم کا بہت نمایاں نام، تراب علی خان نعری عرف تاکن ، عرصہ سے امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈٹریات کے گھنے جنگلوں میں تنہا رہ رہا ہے – ایک بر سرار شخص ، حیرت انگیز کردار

شینا جارج ، ایک خوبصورت مگر زندگی کی مشکلوں سے تنگ لڑکی …تاکن سے مخفی علوم سیکھنے اس جنگل میں اکیلی جا پہنچتی ہے ، آگے کیا ہوتا ہے …کوئی قاری اندازہ نہ لگا سکے گا ، عجیب و غریب تسسلسل اور سچویشن ….

ولن کا نام …چاچ ہے، سفلی علوم کا ماہر ، کریہ المنظر اور کالے جادو کی دھند میں لپٹا شخص ، جس کا پیغام ہی تباہی اور خیر کے خلاف جنگ ہے

ایک ایک کر کے مخفی علوم سے پردہ اٹھایا جاتا ہے ، آسٹرالوجی سے علم جعفر ، نمرالوجی سے سپرچلزم تک …سب علوم کی تفصیل بیان کی جاتی ہے …

ڈی کروز اور میڈم فر چر …دو انتہائی دلچسپ کردار

حق اور باطل کی جنگ …روحانیت میں مکمل لپٹا کردار ، شیخ کلامی …پاکستان میں ایک قصبے میں روحانی علوم کو جلا بخش رہا ہے …

سسپنس ، ٹائبو ، تھرل ، سنسنی اور ہارر سے مزین ”اس ناول ‘تاکن ” کی اب تک شائع ہونے والی چار (4 )اقساط نیچے موجود لنکس پر پڑھ سکتے ہیں –

(شین -عین )

  (””تاکن””’   پچھلے حصے  (١+٢+٣+4 +5)  پڑھیں )

وہ اکیلی  بیٹھی تھی اور رات کافی گہری ہو چکی تھی … ایک شب سیاہ جیسی ناگن زلف تھر تھرا کر تاریک لبادے میں ملبوس کالی رات کا حصہ بن چکی تھی – وہ پر فسوں نیلی آنکھیں ، جن کی گہرائی حسن کا کوئی آلہ نہ ماپ سکے ، ایسی نیلو نیل شاندار بناوٹ والے نین اس کے تھے- جیسے تنہا اور ویرانے میں ایک حسین شوخ گل کھلا ہو جو اپنے نور سے اس تنہائی کو آباد کر دے؛ اس کی آنکھیں ایسے ہی دو پھول تھیں جو وجود چمن میں بہار حسن کی موجودگی کی دو روشن نشانیاں تھیں – وہ دراز کالے بال جن کی چمک اور لشک ناقابل بیان تھی، بل کھاتے خوبصورت بال، جنھیں ایک ادا سے وہ جھٹکتی تھی – ایک سپیدہ سحر سا ہالہ اس کے کتابی چہرے کے گرد طواف سا کر تا تھا – جیسے کوئی شاخ سبز اپنے وجود سے نمو پانے والی ایک چٹختی کلی کو مزید نکھار دیتی ہے ،جلا بخش دیتی ہے تو ایسے ہی سراپا سیاہ میں وہ سفید و سرخ چہرہ ایک خوشگوار تاثر چھوڑتا تھا ، جوانی کی تمازت سے بھرپور چہرہ جو چہروں میں خاص تھا، چند لمحے پیشتر وہ اس جنگل سے متصل پہاڑی پر، رات کے اس وقت اکیلی نہ تھی ، وہ اس کے ساتھ تھا …تاکن وہاں پر موجود اس کو چپ چاپ تکے جا رہا تھا ، اور وہ چمکتے ستاروں میں ، سرد ہوا سے ہمکتے وجود کے ساتھ، خاموشی کے ساتھ ان ستاروں میں اپنی منزل تلاش کرتی تی ، تاکن کے سوال کا جواب کھوجتی تھی مگر اب تاکن نہ تھا اور وہاں ڈراونی افسردہ تنہائی کے سوا کچھ نہ تھا …

*************

‘تاکن! مجھے مخفی علوم سکھا دیں ‘ تاکن نے حیرت سے اپنے سامنے موجود لڑکی جو بلاشبہ بیحد حسین تھی کو غور سے دیکھا جس کے اس سوال سے وہ چونک گیا تھا ..لوگ اسے پروفیسر تراب علی خان نعری عرف تاکن کے نام سے جانتے تھے . تاکن (تراب علی خان نعری) کا مخفف تھا ، ایک بہت بڑا مخفی علوم کا ماہر ، یہاں شہر سے کافی دور اس جنگل میں سالوں سے یکدم تنہا رہ رہا تھا ، خدا کی جستجو میں دن رات ایک کر رہا تھا یہاں ایک لکڑی کے ہٹ ( جھونپڑی) میں اس کی ضرورت کا سب سامان تھا جو ایک تازہ چشمے کے کنارے پر تھا – اس جنگل میں وحشی جانور بھی تھے مگر وہ تو ایک بوسیدہ سی چھڑی جیسے بے ضرر ہتھیار کے علاوہ کچھ نہ رکھتا تھا – اکیلا رہنا، لوگوں سے اور سماج سے دور رہنا ، دن رات خود کو محسوس کرنا ، قدرت کے قریب ہو جانا ، اور زندگی میں ایک جمود طاری کر لینا ، یہ سب اس نے اپنے لیے خود اختیار کیا تھا –

مخفی علوم کی کتابوں ، من کی آواز اور تنہائی کے علاوہ اس کا محبوب کوئی اور نہ تھا …پتھریلے راستے ، اور جا پے جا گھاس کے میدان ، درختوں کے نیچے یا پہاڑی پر سنگ آلود نوکیلی چٹانوں سے ٹیک لگا کر بیٹھتے وقت بھی وہ مخصوص علوم کا مطالعہ کر رہا ہوتا تھا – تاروت کارڈز ، نیٹل چارٹس .پامسٹری ، آسٹرالوجی ، نیومرولوجی اور علم جفر کی گتھیاں سلجھا رہا ہوتا تھا …ستاروں کی چال بتا رہی تھی کہ مون ٹرانزٹ شروع ہونے والا تھا ، جس کا مطلب صرف ایک ہی تھا …’ ٹرانزٹ چینج’ ایک بہت بڑی اور زندگی بدل دینے والی تبدیلی ….تاکن چند دنوں سے بہت بےچین تھا – گاؤں سے ایک بس روز صبح یہاں سے گزرتی تھی ، اور آخری بس شام کو اس جنگل کنارے سے ہوتی گزرتی تھی اور پھر اگلے دن تک عام شاہراہ سے ہٹے اس جنگل کا تعلق اطراف کی آبادیوں سے ٹوٹ جاتا تھا – شام کو آخری بس کا وقت آنے والا تھا اور تب عرصے بعد اس جنگل میں اس کا ایک عام انسان سے سامنا ہوا، کسی نے اس کا نام پکارا، اس وقت وہ ہٹ میں بیٹھا مون ٹرانزٹ کے بارے میں سوچ و بچار کر رہا تھا، وہ ششدر سا باہر آیا تو سامنے موجود اس لڑکی نے کہا

‘ تاکن! مجھے مخفی علوم سکھا دیں ‘

وہ کافی دیر تک کچھ کہنے کے لیے مناسب الفاظ سوچتا رہا ، جبکہ لڑکی کافی نروس نظر آ رہی تھی

‘ تم ‘ وہ یہ کہ کر پھر لڑکی کو گھورنے لگا …’ تم کون ہو ؟ یہاں اس وقت…’

وہ چپ ہو گیا …فضا میں عجیب سی بےچینی تھی ، اسے لگا مون ٹرانزٹ کی پہلی نشانی یہی لڑکی ہے …

لڑکی نے جلدی جلدی کہنا شروع کیا ، کہ وہ زندگی سے بہت پریشان ہے ، اور وہ آخری حد تک جانے کو تیار ہے بس اس کے مسلۓ حل ہو سکیں تبھی وہ یہاں آئی ہے – لڑکی نے بتایا کہ کیسے اس نے تاکن کا پتا حاصل کیا ، قریبی گاؤں والوں نے بڑی مشکل کے بعد اسے یہاں کا بتایا . لڑکی نے تاکن کو گاؤں والوں کی وارننگ نہیں بتائی ‘ ہم نے تمھیں سمجھا دیا مگر تم اب بھی جا رہی ہو تو اپنی ذمے داری پر جانا وہاں ، اور شام کی بس سے لازمی واپس آ جانا…تاکن پہلے بھی ایک دو لڑکیوں کو (اپنے چنگل میں پھنسا کر اپنا مطلب پورا کر چکا ہے ) عام لغت میں ‘سڈ یوس’ کر چکا ہے ‘ لڑکی نے تاکن کو اپنے اوپر کالے جادو ہونے کا شبہ ظاہر کیا اور اصرار کیا کہ وہ ان علوم سے صرف حل ہی نہیں چاہتی بلکہ وہ سچے دل سے سیکھنا چاہتی ہے اس دوران تاکن خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا ، اس نے ایک لفظ بھی نہ کہا …

جب وہ لڑکی خاموش ہوئی تو تاکن نے سرد لہجے میں کہا
‘ یہ جانتے بھی کہ گاؤں والوں نے کیا کہا ، تم پھر بھی یہاں موجود ہو ؟’

لڑکی کی آنکھیں حیرت سے پھیل چکی تھیں ، وہ سمجھ نہ پائی کہ تاکن کو اس بات کا جو اس کے ذھن میں تھی کیسے پتا چل گیا …’ شاید اسے اپنی شہرت کااندازہ ہے ‘ لڑکی نے یہی سمجھا اور کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا، اسے لگا کہیں کوئی بات تاکن کو بری نہ لگ جائے اور وہ اس کا استاد بننے سے انکار کر دے …

تاکن نے جواب کا انتظار کیا اور پھر اسی پتھریلے لہجے میں کہا

‘ شام کی بس جانے والی ہے …کل صبح تک کوئی بس نہ ہو گی ، تم اب بھی رکنا چاہتی ہو ؟’

‘ہاں ‘ لڑکی نے مختصر یک لفظی جواب دیا

‘آؤ مرے ساتھ ..’ تاکن یہ کہ کر آگے چلنے لگا …لڑکی خاموشی سے اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی …

*************

تاکن درختوں سے آتی سورج کی کرنوں میں نہایا ، اس جنگل میں زیگ زیگ انداز میں چل رہا تھا ، لکٹری کے تختے پھلانگتا ، درختوں کی ٹہنیاں ہٹاتا ، ایک خاص انداز میں بیحد پھرتی سے چل رہا تھا …وہ سوچنے لگی کہ اس کی عمر کم از کم پچاس سال تھی، مگر اس کی چال میں جوانوں والی پھرتی تھی …اس کے چہرے پر ایک عجیب سی معصومیت تھی، جیسے بچوں کے ہوتی ہے ، تراشی سفید داڑھی اس کی سرخ و سپید رنگت پر بیحد سجتی تھی ، اس کے لمبے بال کالے تھے جو کندھوں تک آتے تھے اس کا قد لمبا، اور جسم کسرتی تھا بلاشبہ وہ بیحد دیدہ زیب اور چارمنگ لگتا تھا ، اس کی شخصیت بیحد مقناطیسی تھی مگر دو چیزیں جیسے اس کے وجود پر ایک رکاوٹ سی تھیں ، ایک اس کے داہنے گال پر کھنچا ، جاقو یا خنجر کا زخم تھا اور دوسری چیز اس کی پرسرار ، بیحد گہری اور حاوی ہو جانے والی کالی آنکھیں تھیں …ان میں ایک وحشیانہ سی چمک تھی ، جب وہ اس کے سامنے کھڑی تھی تو ان آنکھوں میں دیکھ نہ پا رہی تھی وہ بات کرتے کرتے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ، ان آنکھوں میں کچھ خاص بات تھی جو وہ سمجھ نہ پاتی تھی …چلتے چلتے کافی دیر ہو چکی تھی ، سورج کی کرنیں جو چھن چھن کرتی ، درختوں میں سے آ رہیں تھیں اب معدوم ہو چکی تھیں …اندھیرا بڑھ رہا تھا اور ان کے پاس روشنی بھی نہ تھی، وہ تاکن کو کہنے لگی کہ ٹارچ وغیرہ ہو تاکہ گھپ اندھیرے میں ٹھوکر نہ لگ جاۓ …

اسی وقت تاکن نے اچانک مڑے بغیر کہا ،

‘ میرے ساتھ ساتھ چلو …اندھیرا بڑھ چکا ہے ‘

وہ مزید حیران ہوئی اور سوچنے لگی کہ اس شخص کو ہر بات کا پہلے سے کیسے پتا چل جاتا ہے
تاکن جانتا تھا کہ آج رات فیصلہ ہو جانا ہے …تبدیلی کے سب نشان موجود تھے اور مون ٹرانزٹ کا وقت شروع ہو چکا تھا، ظاہر ہے اس نے اس لڑکی کو کچھ نہ بتایا تھا …اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ مستقل کھیل رہی تھی -لڑکی کافی تھک چکی تھی ، چڑھائی پر اس کا سانس تیز ہو گیا …گڑھے اور کھائیاں الگ مصیبت تھے …’ میں کیا کر رہی ہوں؟ میں یہاں کیوں ہوں ؟ ‘ اس نے پہلی بار تنگ آ کر سوچا …گاؤں والوں نے اسے وارننگ بھی دی تھی …مگر اب جو ہونا تھا ہو چکا ، اب رسک اٹھا ہی لیا ہے تو بھاگنے کا کیا فائدہ ؟ جو ہو گا دیکھا یے گا! وہ یہ سوچ کر تھوڑی پر سکون ہوئی – تبھی جنگل ختم ہو گیا، اس کے ساتھ ہی ایک گھاس کا میدان سا تھا جس سے جڑی ایک پہاڑی تھی جو اندھیرے میں ڈوبی کافی خوفناک لگ رہی تھی …چاند بادلوں میں چھپا تھا اور نیچے شدید اندھیرا تھا مگر جنگل ختم ہوتے دیکھ کر اسے لگا اس کے سر سے بوجھ اتر چکا تھا ، اس جنگل میں اسے ڈر بھی لگ رہا تھا …تاکن ایک جگہ کھڑا ہو گیا …اس نے اپنی آنکھیں لڑکی پر جما دیں جو ان کھوجتی نظروں کی تاب نہ لا کر آسمان کو دیکھنے لگی …

‘ یہ ستارے دیکھ رہی ہو ؟’ تاکن بولا

‘ ہاں تاکن’

‘یہ جھوٹ نہیں بولتے ‘ اس کا لہجہ پرسرار تھا ، لڑکی نے اچنبھے سے تاکن کو دیکھا ، وہ سمجھ نہ پا رہی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے

وہ گڑبڑا کر ، تھوک نگلتے ، بس اتنا کہ سکی ‘ اچھا ؟’

تاکن نے کچھ دیر تک کچھ نہ کہا پھر آسمان کو دیکھتے ہوے بولا ‘ میں تمہارا استاد صرف ایک شرط پر بن سکتا ہوں ، تمہیں یہ سب علوم صرف ایک سوال کے جواب پرسکھا سکتا ہوں …مگر مجھے سچ اور صرف سچ سننا ہے ورنہ تم ابھی یہاں سے واپس چلی جاؤ گی – منظور ہے ؟’

لڑکی کے دماغ میں اندیشوں کے سانپ سے رینگنے لگے …یہاں وہ بے بس تھی …وہ کیا چاہتا تھا؟ اسے کچھ علم نہ تھا، مگر اس کے پاس اس چیلنج کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا …

اس نے مظبوط لہجے میں کہا ‘ ہاں میں سچ بولوں گی ..’ پھر فاتحانہ نظروں سے تاکن کو دیکھنے لگی ‘ مجھے آپ کا چیلنج منظور ہے تاکن’

یہ سن کر تاکن کا چہرہ اندھیرے میں بھی جیسے جگمگا سا اٹھا اس نے لڑکی کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور پہاڑی کی طرف بڑھ گیا …
پہاڑی پر پہنچتے انھیں آدھ گھنٹہ اور لگ گیا … وہاں پر ایک ہموار جگہ پر تاکن چوکڑی مار کر بیٹھ گیا …کچھ فٹ کے بعد ڈھلوان تھی جو سیدھی نیچے ، سینکڑوں فٹ نیچے گہرائی میں گرتی تھی …لڑکی بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی پیچھے ایک عمودی چٹان کا حصہ ، ایک بینچ کی طرح تھا اور سامنے خوفناک گہرائی تھی …کچھ دیر مکمل خاموشی رہی تبھی ہلکی ہلکی چاندنی میں ایک سائے نے نیچے کہیں جنگل میں حرکت سی کی ، لڑکی کو اپنے جسم پر پھریریاں سی محسوس ہوئیں وہ ڈر کر تاکن کے اور قریب ہو گیئی .

‘ فرض کرو ‘ تاکن نے اچانک اسے مخاطب ہو کر کہا ‘ میں تمھیں سکھا نے پر، تمام کائنات کے مخفی علوم سکھانے پر راضی ہوں …اور تم بھی دل لگا کر ان کو سیکھتی ہو ، سمجھتی ہو …چند سال گزر جاتے ہیں …اب تمھیں سیکھتے سیکھتے کافی عرصہ ہو چکا ہے، بنیادی چیزوں کو تم سمجھ چکی ہو اور اب مشق کرتی ہو …ہر روز گھنٹوں تمھیں تعلیم دی جاتی ہے اور فرض کرو تم حرکت سے سکون اور جمود سے مشاھدہ تک کا بنیادی عمل سیکھ چکی ہو اور …تب ‘

‘ تاکن سانس لینے کو رکا ، اس کی پتھریلی نگاہیں اب بھی اس لڑکی پر فوکس تھیں …لڑکی اس گیان کو دل جمی سے سن رہی تھی وہ سمجھ رہی تھی کے یہ سوال اتنا آسان نہیں ہو گا جتنا اس نے اندازہ لگایا تھا

‘ پھر ؟’ لڑکی سے رہا نہ گیا

تاکن اسی سرد لہجے میں کہتا گیا ‘ تب ..ایکدن تم گاؤں جاؤ …کسی کام سے ، کچھ چیزیں لینے …اور وہاں تمہاری ملاقات تمھارے سچے محبوب سے ہو جاۓ ایسا مرد جسے دیکھتے ہی تم اس سے محبت کرنے لگو …تمھیں لگے وہ تمھارے ادھورے وجود کا گمشدہ حصہ ہے جسے پا کر تمہاری زندگی مکمل ہو چکی ہو …اور تم دونوں کی محبت پروان چڑھے ، دن کو تم مخفی علم سیکھو اور رات کو محبت کے راز جانو …تو ایک دن ایسا آے گا جب یہ دونوں چیزیں ساتھ نہیں چل سکیں گی …تمھیں ان دونوں ، اس مخفی علم کو سیکھنے اور اپنے سچے محبوب کی رفاقت میں سے ایک کو اختیار کرنا ہو گا …کسی ایک کو چھوڑنا ہو گا ..تو سچ اور صرف سچ بتاؤ تم کیسے اختیار کرو گی ؟’ تاکن خاموش ہو گیا

…لڑکی اس سوال پر پریشان ہو چکی تھی ، اس نے کمزور سا احتجاج کرتے ہوے کہا

‘ میں …میں ان دونوں کو آپس میں ٹکرانے نہ دوں گی ، دونوں چیزیں چل سکتی ہیں ‘

‘نہیں ‘ تاکن نے ذرا غصے میں اس کی بات کاٹ دی ‘ میرا سوال یہ نہیں ہے ، صرف یہ بتاؤ تم کس کو اپناؤ گی کس کو چھوڑ دو گی، صرف سچ بتانا کہ جھوٹ بول کر تم بچ نہیں سکتی اور سچ مجھے پتا چل ہی جاتا ہے ! ‘

لڑکی گہری سوچ میں ڈوب گیی ، اس نے اپنے تیس سالہ زندگی میں کتنی مرتبہ محبت کی تھی اور ہر دفع اسے لگا یہی اس کا سچا محبوب ہے مگر وقت کی دیمک اس محبت کو کھا جاتی تھی تو یہ سچا محبوب اس کے نزدیک ایک افسانوی چیز تھی ، مگر ساتھ ہی ساتھ اسے یقین تھا کہ ہر شخص دو حصوں میں بٹا ہوتا ہے اور جب تک وہ دونوں حصے دنیا میں نہیں ملتے بے قرار رہتے ہیں …ایک مرد ، ایک عورت مل کر ایک حصہ یا ‘روح کے ساتھی ‘ بن جاتے ہیں ، جوڑا بن جاتے ہیں اور ایسے صرف ایک ہی سول میٹ یا روح کا ساتھ ہو سکتا ہے اور وہ جب تک نہیں ملتا لوگ ناکام محبتیں کرتے ہیں یہ سب اس نے ایک مخفی علوم کی کتاب میں پڑھا تھا – اس کے ذہن کوئی فیصلہ نہ کر پا رہا تھا ، اگر وہ مخفی علوم انتخاب کرتی اور کوئی حقیقی سچا محبوب آ جاتا تو اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی تباہ کر دی تھی – وہ اب تک اس روح کے ساتھی کی تلاش میں جگہ جگہ بھٹک رہی تھی ، اور اسے یہ بھی احساس تھا اگر اس نے سچا محبوب منتخب کر لیا ، تو مسٹ اسے کبھی نہیں سکھاۓ گا ، وہ جانتی تھی اس نے سچ ہی بولنا ہے اور یہ سب ایک سبق ہی تھا …

‘ میں علوم کو اس محبوب پر ترجیح دوں گی ‘ بالآخر اس نے فیصلہ سنا دیا ، تاکن نے چند لمحے کوئی حساب لگایا اور پھر کہا

‘میں آج سے تمہارا استاد ہوں ، تم نے سچ کہا ہے ‘ تاکن یہ بھی جانتا تھا کہ ‘ روح کا ساتھی ‘ اور مون ٹرانزٹ یا چاند تبدیلی ایک دوسرے سے ہی نکلے تھے- جبکہ سن ٹرانزٹ یا سورج تبدیلی کا تعلق وقت اور یادوں سے تھا – لڑکی یہ سن کر بیحد خوش بیٹھی تھی

‘آج تمہارا پہلا سبق ہے …آنکھیں بند کر لو، حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرو …ایک یہ دنیا ہے جو دکھائی دیتی ہے ، ایک وہ دنیا ہے جو غایب ہے، اور دونوں کو ملانے والا ایک پل ہے …ایک ایسا پل جو مخفی علوم کے سیمنٹ سے بنا ہے …تم اس پل پر پہلا قدم رکھ رہی ہو …جب محسوس کرو کہ تم اس پل پر ہو تو آنکھیں کھول لینا ‘ تاکن نے تحکمانہ لہجے میں کہا –

لڑکی نے فورا آنکھیں بند کر لیں …وہ زندگی اور موت ، حقیقت اور فکشن، جادو اور حق، جھوٹ اور سچ، رحمان اور شیطان، دنیا اور آخرت، جنت اور جہنم ان سب کے درمیان موجود اس ‘ پل’ پر خود کو محسوس کرنے کی کوشش کر تھی …ایک ایسا برج یا پل جو نظر نہیں آتا مگر جس کا وجود ثابت ہے، میرا اور مرے روح کے ساتھی کے درمیان بھی تو ایک پل ہے ..اس نے سوچا ، اسے کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا ، چیزیں مشکل تھیں ، چند لمحوں بعد ہی اس کا سر چکرانا شروع ہو گیا اور اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں …تاکن وہاں نہیں تھا ، اور وہ اس چٹان پر ، اس کالی رات میں اکیلی تھی …

*************

وہ کافی دیر تاکن کا انتظار کرتی رہی مگر وہ نہ آیا ،ایسی اندھیری رات میں بچبن کی خوفناک کہانیاں حقیقت کا روپ دھار رہیں تھیں ، بھوت ، چڑیلیں ، جنگل کے خوفناک جانوروں کی آوازیں ، سائے …اور اسے ہر جگہ متحرک ساۓ سے ہلتے نظر آ رہے تھے، خوف کی شدت میں اس کا حلق خشک ہو چکا تھا …چند لمحے وہ ضبط کرتی رہی مگر کسی کے بیحد قریب سے چلنے کی آواز پر وہ بیحد ڈر گیئی اس نے اونچی آواز میں کہا .

‘ک -کون ہے وہاں ؟’

کوئی جواب نہیں آیا ، مکمل سکوت ، بھیانک خاموشی تھی –

اس نے اپنے ماتھے پر موجود پسینہ صاف کیا ، اسے رہ رہ کر خود پر غصہ آ رہا تھا کہ آخر وہ یہاں اس شخص پر اعتبار کر کے کیوں چلی آئی جو اسے یوں مرنے کے لیے اکیلا چھوڑ گیا تھا ، اس نے سوچا وہ خود چلی جایے مگر چٹان سے نیچے کا راستہ اس گھپ اندھیرے میں بیحد خوفناک تھا، پھر وہ جنگل تک پہنچ بھی جاتی تو آگے کیا کرتی ؟ اسے احساس ہو چکا تھا وہ یہاں کی قیدی تھی ، ایسی قید جس سے چاہ کر بھی نہ نکل سکتی تھی ، تاکن وہاں پر نہیں تھا، اور اس تنہائی میں رات کے بھیگتے بھیگتے ، اس کے شر میں ، اس کی خوفناکی میں اضافہ ہوتا گیا …طرح طرح کی آوازیں آنے لگیں ، پھر اسے لگا کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہے اس نے بے اختیار چیخیں ماریں ، اور اچھل کا ایک طرف موجود پتھر کے بینچ نما چٹان پر بیٹھ گیئی ، کندھے پر ہاتھ رکھنے کے احساس کے بعد اس کی حالت خراب ہو چکی تھی ، وہ بری طرح کانپ رہی تھی – اس نے تاکن کو بلا ارادہ کوسنا شروع کر دیا ، وہ نیم دیوانگی کی حالت میں جا چکی تھی ، خوف و شدید ڈر نے اس کی ذہنی صلاحتیں ختم کر دی تھیں …تبھی اسے اچانک رونا آ گیا اور وہ مسلسل تب تک روتی رہی جب تک آنسو ہی خشک نہ ہو گیے – ڈر ڈر کر، سہم سہم کر ، اس نے کچھ وقت گزار ہی دیا …تبھی اسے لگا کوئی چیز سمجنے موجود ڈھلوان سے اسے دیکھ رہی ہے …عجیب چھلاوا جیسی چیز تھی ، اس کی رگوں میں خون ہی منجمد سا ہو گیا ، اس کے رونگھٹے کھڑے ہو چکے تھے ، روں روں میں اذیت، تکلیف اور خوف تھا ، رات کا خوف ، انجانے کا خوف …اور ان چیزوں کا خوف …اس نے بے بسی سے اپر کھلے آسمان کو دیکھا ، جہاں چمکتے ستاروں کی روشنی بیحد خوبصورت تھی ، وہ اس قدر تنگ آ چکی تھی کہ اس کا ذہن ماؤف ہو چکا تھا …اس نے اپنے جسم میں بیزاری کی لہر محسوس کی ، یہ پل پل ، لمحہ لمحہ موت سے تو ایک دفع کی موت بہتر ہے اس نے جنجھلا کر سوچا …

‘ جو بھی ہو …سامنے آؤ ، میں یہاں ہوں …آؤ’ وہ اچانک کھڑی ہو کر چیخنے لگی …اس کی نظریں اس خوفناک چھلاوے پر تھیں

‘ آتے کیوں نہیں ؟ میرا کام تمام کر دو میں یہاں ہوں ..بولو …ڈرپوک سامنے آؤ ‘ وہ ہزیانی لہجے میں کہ رہی تھی ، تبھی اسے لگا جیسے وہ چھلاوا اب وہاں نہیں تھا ، وہ بے اختیار زور زور سے ہنسنے لگی

‘بھاگ گیا …ڈرپوک، مجھ نہتی سے ڈر کر بھاگ گیا …’ اس کی ہنسی تھم نہ رہی تھی ، وہ خوف کی آخری حد تک جا چکی تھی ، اور اسے پار کرتے ہی اب اسے خوف ہی محسوس نہ ہو رہا تھا ، یہ ایک نیی چیز تھی ، ایک عجیب تجربہ تھا …تبھی اسے یاد آیا ‘ تاکن ‘ نے کہا تھا کہ آج اس کا پہلا سبق ہے …تو یہ سب کیا ایک سبق تھا ، خوف پر قابو پانا ایک سبق تھا ؟ وہ سوچنے لگی …تبھی اس کے دماغ میں ایک خیال بجلی کی طرح لپکا

‘ کہیں خوف اور بہادری میں بھی ایک پل تو نہیں ہے ؟ اور میں نے اس پل پر پار جا کر دیکھ لیا ، یہ خوف بھی ایک بودی چیز ہے ‘ اس نے خود کلامی کرتے ہوے کہا

…اب وہ بیحد اطمینان سے اسی بینچ پر بیٹھ چکی تھی ، اسے یہاں چار گھنٹے سے زاید وقت بیت چکا تھا ، اور اب وہاں وہ بھوت، چڑیل، ساۓ ، جانور اور رات کی خوفناک آوازیں سب موجود تھے مگر اس کا خوف نہیں تھا، اور یہ سب جیسے اب کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے …اس نے آنکھیں موند لیں …اور چند لمحوں بعد وہ سکون سے سو رہی تھی، اکیلی تنہائی، اسی چٹان پر …تاروں کی چمک بڑھ چکی تھی ، چاند بادلوں کی اوٹ سے باہر آ چکا تھا – اور مون ٹرانزٹ شروع ہو چکا تھا –

*************

تاکن جنگل میں ایک گرے درخت کی اوٹ سے کافی دیر سے پہاڑی پر اسے دیکھ رہا تھا، اس کی چیخنے اور رونے کی آوازیں سن رہا تھا، اس کا دل چاہا کہ جا کر اس کو دلاسہ دے اور اسے اس کی اذیت سے نجات دلا دے ، ایک لڑکی کے لیے یہ پہلا سبق بہت مشکل تھا، مگر جب بھی وہ پہاڑی کی طرف جانا چاہتا تھا، اس کے قدم رک جاتے …وہ اس ‘تبدیلی ‘ اور اس لڑکی کی یہاں آج موجودگی کا تعلق جاننا چاہتا تھا ، جب وہ چیخ چیخ کر کہنے لگی ‘جو بھی ہو …سامنے آؤ ، میں یہاں ہوں …آؤ’ تو تاکن کا ضبط جواب دے گیا اس نے چند قدم پہاڑی کی طرف بڑھاۓ ہی تھے کے اس لڑکی کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں، اور پھر وہ نارمل ہوتی چلی گیئی اور تاکن مسکراتے ہوے پھر واپس اسی درخت تک پہنچ گیا ، چند لمحوں بعد وہ اسے چاند کی فسوں انگیز روشنی میں سوتے دیکھ سکتا تھا ، اس نے اپنے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی محسوس کیں ، مون ٹرانزٹ سچا تھا –

‘ تم ہی ہو …تم ہی ہو میری روح کی ساتھی ‘ تاکن اس لڑکی کو محویت کے عالم میں تکے جا رہا تھا – وہ پراسرار مسکراہٹ گہری ہو چکی تھی ، اور اس کی آنکھیں موتیوں کی طرح چمک رہی تھیں-

*************

صبح جب وہ جاگی تو پچھلی رات کے تحیر انگیز حصوں پر سوچنے لگی ، پہاڑی سے نیچے اتر کر وہ جنگل میں کچھ دیر ہی چلی اور تاکن کا خالی ہٹ نظر آیا اور وہ سوچنے لگی تاریکی میں فاصلے کتنے بڑھ جاتے ہیں، پھر وہ روڈ تک پہنچی اور پہلی بس سے وہ گاؤں پہنچ چکی تھی ، کل رات اس کی زندگی کی ایک یادگار رات تھی …گاؤں سے شہرکا راستہ اس نے ان ہی خیالوں میں گزارا …بچپن سے جوانی ، اور جوانی سے آج کا دن ….یہ سب کیسا حیرت انگیز ہے ؟ جب وہ اپنے ہاسٹل کے کمرے میں پہنچی تو اس کی روم میٹ نے اسے دیکھتے ہی حیرت سے کہا

‘یہ تمھارے چہرے پر خون کیوں لگا ہے ، شینا ؟’

شینا وہیں منجمد ہو کر رہ گیئی !

تاکن

(حصہ دوم ) مصنف :کاشف علی عبّاس 

ڈی کروز سیکرٹ سوسایٹی

کدھر لگا ہے خون ؟ شینا نے بوکھلاہٹ میں اپنے ہاتھوں سے چہرہ رگڑتے ہوۓ کہا ، اس سے پہلے کہ اس کی روم میٹ جواب دیتی ، اسے اپنے ہاتھوں پر خون کے نشان نظر آ چکے تھے – وہ جلدی جلدی واش روم کی طرف بھاگی ، خون تازہ صاف کیا اور پھر واپس کمرے میں آ کر اپنے بیڈ پر جیسے ڈھے گیئی – اس کی روم میٹ اسے خاموشی سے دیکھے جا رہی تھی – یہ خون کے قطرے پہلی بار شینا پر نہیں گرے تھے – اکثر ایسا ہوتا کہ وہ بیٹھی کتاب پڑھ رہی ہوتی اور اوپر سے چند خون کے قطرے گر جاتے ، چھت پر کچھ ایسی چیز نہ ہوتی ، کبھی اس کے کپڑوں پر بنا زخم ہی یہ لال لال دھبے نظر آتے …شینا نے سوچا ‘ میری زندگی میں پہلے کم مصیبتیں ہیں کہ ایک یہ خونی مصیبت بھی شامل ہو گیئی ‘ وہ جانتی تھی اس طرح ان قطروں کے گرنے کا مطلب کالا جادو یا ایسی ہی کوئی چیز ہے – میں کل ‘ ڈی کروز بک شاپ ‘ پر جا کر اس کے مالک سے پوچھوں گی وہاں ہر طرح کی مخفی علوم کی کتاب وہ دیکھ چکی تھی ، وو صرف چند صفحے کھنگالتی اور ان سمبلز کو، ان تصویروں کو سمجھنے کی کوشش کرتی ، مگر اس نے کبھی کوئی کتاب نہ خریدی تھی وہ بیحد مہنگی کتابیں تھیں …مگر شینا کو یقین تھا کہ ‘ ڈی کروز بک شاپ ‘ کا مالک مخفی علوم کے بارے میں ضرور کچھ جانتا ہے ، اس نے جیسے وہاں جانے کا فیصلہ کر لیا اور پھر آنکھیں موند لیں وہ اس ذہنی اور جسمانی سفر سا بیحد تھک چکی تھی ، چند لمحوں بعد وہ گہری نیند سو رہی تھی -اس کی روم میٹ کا نام کیٹی تھا، کیٹی نے شینا کو سوتے دیکھا تو گھٹی گھٹی آواز میں بولی ‘ خدا کرے کہ تم پھر سے نارمل ہو جاؤ، میری اچھی دوست ، میری پیاری شینا ‘ جبکہ شینا بے خبر سو رہی تھی –

*************
‘ ڈی کروز بک شاپ ‘ کا مالک، ہینری ڈی کروز ، ایک کاروباری سا دکھنے والا شخص تھا ، اس کی آنکھوں پر موٹے فریم والی عینک تھی، مخصوص کاروباری مسکراہٹ ہر وقت چہرے پر سجی رہتی تھی -اس کے چوڑے ماتھے کے وسط میں ایک ‘ بچھو ‘ کا ٹیٹو ‘ پیشانی پر عجیب بہار دکھاتا تھا، یہی واحد چیز اس کی عام شکل و صورت کو خاص بنا دیتی تھی – اس بچھو کا ڈنک اٹھا ہوا تھا، جیسے حملے (سٹرایک) کو بلکل تیار ہو –
ڈ ی کروز اس وقت کاونٹر کے عقب میں موجود مصطیل کرسی پر بیٹھا ہوا تھا ، گاہک کتابیں دیکھ رہے تھے ، کچھ قریب ہی کرسیوں پر بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے -تبھی صدر دروازے سے ایک درمیانی عمر عورت داخل ہوئی ، اس نے کالا چغہ پہنا تھا ، سر پر ایک مخروطی جوکر نما ٹوپی تھی ، چہرے کے نقوش سخت تھے جیسے وہ مسکرانا ہی نہ جانتی ہو – وہ سیدھا کاؤنٹر کی طرف آئی ڈی کروز اسے دیکھتے ہی روبوٹ کی طرح احترام میں کھڑا ہو گیا

‘ اوہ …آپ اور یہاں ؟ میڈم فر چر ‘ اس کے لہجے میں ادب تھا

میڈم فر چرنے ڈی کروز کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوے درشتی سے ڈی کروز کو مخاطب ہوتے ہوے کہا ،

‘ چاچ ‘ اس شہر میں آ چکا ہے ، ہوشیار ہو جاؤ ! ڈی کروز سیکرٹ سوسایٹی کے تمام ممبرز کو الرٹ کر دو ‘ اس کی آواز عجیب سی کھڑ کھڑا تی سی آواز تھی ،
جیسے اس کے گلے میں وائلن کے تار لگے ہوں

ڈی کروز اس طرح چونکا جیسے اس کے قدموں میں بم پھٹا ہو ، اس نے خوف سے لرزتی آواز میں کہا

‘ اوہ …یہ تو بہت برا ہوا ؟ میڈم ..آپ پلیز بیٹھیں …’چاچ’ تو ‘ڈی ایکٹو’ تھا، یہ سب کب ہوا ، کیسے ہوا ؟’

‘ فضول بکواس مت کرو …مون ٹرانزٹ اس کی واپسی کا سب سے موزوں وقت ہے ، تم جانتے تو ہو!’ میڈم فر چر نے قدرے غصیلے لہجے میں کہا،اس کے چہرہ مزید سخت ہو حکا تھا

ڈی کروز نے ندامت بھرے لہجے میں معذرت کی ، تو وہ قدرے نارمل انداز میں کہنے لگی

‘ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے – جو کہا ہے وہ کرو ! ‘

‘ جی میڈم ، حکم کی تعمیل ہو گی …آج رات سب مخصوص وقت پر وہاں موجود ہوں گے ‘ ڈی کروز نے مودب لہجے میں کہا ، میڈم نے چند لمحے ادھر ادھر دیکھا اور پھر واپس جانے کو مڑی دروازے کے پاس پہنچ کر وہ رک گیئی

‘ وہ آئی تھی ؟’ اس نے اچانک سوال کیا

‘ کون ؟’ ڈی کروز حیران ہو کر میڈم کو دیکھ رہا تھا

‘ جب وہ آۓ گی ، تمھیں پتا چل جاۓ گا – اسے میرا بتا دینا ، وہ ہماری آخری امید ہے ‘ میڈم نے تیز تیز ، اسی کھڑ کھڑا تی آواز میں کہا اور وہ ساتھ ہی دروازہ کھول کر دکان سے باہر جا چکی تھی –

ڈی کروز ابھی تک میڈم کے الفاظ پر غور کر رہا تھا – ‘چاچ’ ، ‘ مون ٹرانزٹ’ اور ‘ کوئی لڑکی’ …

‘یہ تو بہت برا ہوا ‘ اس نے خود کلامی کی ‘ میڈم فر چر کی بات کبھی غلط نہیں ہوتی …بہت برا ہوا ‘ وہ بار بار سر ہلا ہلا کر کہ رہا تھا، اس کی کاروباری مسکراہٹ پہلی بار غایب ہو چکی تھی ، ‘ مجھے سب ممبرز کو بتانا ہو گا ، اف بہت برا ہوا ‘ وہ اسی ایک جملے کی گردان کر رہا تھا، اور اس کی بک شاپ میں موجود گاہک حیرانی سے اسے تکے جا رہے تھے –

*************
جنگل میں اس وقت شام ہو رہی تھی ، فضا میں پرندے مستیاں کر رہے تھے ، جنگل میں ہر پتے ، ہر جھاڑی میں حرکت کا شبہ ہوتا تھا، زندگی اپنے عروج پر تھی – تازہ پانی کے چشمے کے پاس ، شفاف پانی میں گرے پتھروں پر اگے پودوں کے پاس، ایک مادہ ہرن اور اس کا بچہ پانی پیتے تھے- مادہ ہرن کے کان ہر آہٹ پر چوکنے ہو جاتے ، اس کی چھوٹی سی دم مسلسل ہل رہی تھی جو کے ‘ سب اچھا ہے !’ کا ہرنوں کا آپس میں بات چیت کا سیمبل یا نشان تھا ، جبکہ بچہ ہرن بے فکری سی ، قدرے شوخی سے اس کے ساتھ چہلیں کر رہا تھا – تبھی وہاں ایک عجیب و غریب ڈراونا سکوت طاری ہو گیا ، جیسے وہاں موجود ہل چل رک سی گیئی ہو، ایک عجیب سی ڈرا دینے والی خاموشی ہو چکی تھی – مادہ ہرن کو خطرے کا احساس سا ہوا ، مگر تب تک دیر ہو چکی تھی – کوئی بجلی کی تیزی سے اس پر جھپٹا ، ایک ہی لمحے میں اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی، اس کا بچہ بھاگ چکا تھا، اور اس کی مخصوص آواز سے جنگل گونج رہا تھا ، اکیلی تنہا ماں کو پکارتی آواز – چند لمحوں بعد چشمے کے شفاف پانی میں رنگ بھرنے لگا، یہ اس مادہ ہرن کی گردن میں پیوست دانتوں کی وجہہ سے نکلنے والا خون تھا، جو بہ کر چشمے کو لال کر رہا تھا – وہ دانت کسی جانور کے ہرگز نہ تھے ، چھوٹے چھوٹے وہ دانت، انسانی دانت تھے پھر اس وجود نے باچھوں پر بہتے خون کو صاف کیا اور گھنے جنگل میں گم ہو گیا ، چشمے کا رنگ اب بھی لال تھا ، قریب ہی مادہ ہرن کی بے نور آنکھوں والا کٹا سر پڑا تھا – اور جنگل میں عجیب سا ڈراؤنا سکوت تھا !

*************

‘ تم کب ، کہاں اور کس وقت پیدا ہوئی ؟’

شینا نے اس سوال پر قدرے حیران ہو کر سامنے موجود کالے چغے میں ملبوس ، میڈم فرچر کو دیکھا -وہ آج ڈی کروز سے ملی تھی ، جس نے اسے یہاں کا پتا بتا دیا ، بغیر وقت ضائع کیے اسے یہاں ، میڈم فر چر کے پاس بھیج دیا ، یہ کہ کر کہ مخفی علوم میں میڈم فر چر سے بہتر کوئی نہیں جانتا – جب وہ بتاۓ ہوۓ پتے پر پہنچی تو ایک قدیم سا دو منزلہ مکان ، آکاس بیل جو دیواروں میں ہوتی ہوئی او پر تک جا رہی تھی ، پینٹ جگہ جگہ سے اکھڑ چکا تھا، اور کہیں سفید کہیں سلیٹی رنگ بہت خوفناک سا منظر پیش کر رہے تھے – اس مکان کے ارد گرد دور دور تک کوئی آبادی نہ تھی ، یہ ایک متروک شدہ رہائشی منصوبے میں شامل جگہ تھی، جہاں اب میڈم فر چر کے علاوہ کوئی بھی نہ رہتا تھا ، مکان تھے مگر انسانی آبادی سے خالی مکان تھے – ویرانہ بولتا تھا، الو اور چمگاڈر کے سوا اسے کوئی پرندے نظر نہ آۓ ، شینا نے اگر وہ رات جنگل میں نہ گزاری ہوتی تو شاید اتنی خوفناک جگہ دیکھ کر ہی الٹے قدم بھاگ جاتی – مگر حوصلہ کر کے وہ اس نے سیلن زادہ دیواروں سے متصل دروازے پر دستک دی تو وہ کھل گیا ، اسے متفل نہ کیا گیا تھا ، اندر داخل ہوتے ہی ایک راہداری سی تھی جس کے اختتام پر ایک بڑے سے کمرے میں ، سلگتے آتش دان کے سامنے کرسی پر ، میڈم فر چر بیٹھی تھی، ملگجا سا، دھویں کا ایک چھلا فضا میں تھا، شینا کو یہ سب کسی ہارر فلم کے منظر سے کم نہ لگا – وہ خود پر قابو پاتی میڈم فر چر کے قریب پہنچی ہی تھی کہ میڈم نے اپنی مخصوص ، الجھن پیدا کرنے والی سیٹی نما کھڑ کھڑا تی آواز میں ، غراتے ہوے کہا

‘ تم کب ، کہاں اور کس وقت پیدا ہوئی ؟’ ‘

شینا شاید اس قدر ڈائرکٹ سوال کے لیے تیار نہ تھی ..اس نے آہستہ سے کہا

‘ میرا نام شینا ہے ،آپ مجھے مخفی علوم سکھ دیں – مجھے ڈی کروز نے ..’

مگر میڈم نے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روک دیا ،’ سوال کا جواب دو شینا’ میڈم فر چر نے اسی ٹون میں کہا

‘ تین ستمبر، ١٩٧٥ ، شام ٦ بجے ، لیڈن میں ‘ شینا نے کسی معمول کی طرح اسے جواب دیا

‘ ہونھ …بیٹھ جاؤ !’ شینا بیٹھ گیئی – چند منٹ میڈم فرچر خاموشی سے اس کا نیٹل چارٹ ( برتھ چارٹ جو آسٹرالوجی میں استمعال ہوتا ہے) بناتی رہی – کبھی کبھی وہ نظر اٹھا کر شینا کو دیکھتی پھر ایک ہنکارا سا بھرتی اور اپنے کام میں مصروف ہو جاتی – کافی دیر بعد میڈم نے سر اٹھایا ، اس کے چہرے کے تاثرات بدلے بدلے سے تھے

‘ ناقابل یقین! صرف میری آنکھوں میں دیکھتی رہو ‘ میڈم نے شینا کی آنکھوں میں براہ راست دیکھتے ہوے کہا – شینا کا تجسس مزید بڑھ چکا تھا –
اب پوچھو جو پوچھنا ہے ؟’ میڈم مسلسل اسے دیکھے جا رہی تھی، ایک عجیب سے طریقے سے – شیناجانتی تھی اس وقت جس انداز سے وہ اسے دیکھ رہی ہے ، وہ ایک ‘ ٹنل کنکشن’ بنا رہی ہے ، جس میں دو بندے ایک دوسرے کو مسلسل دیکھتے ہیں اور کچھ دیر بعد ایک کنکشن بن جاتا ہے اور ارد گرد کا ماحول بلکل ختم ہو جاتا ہے، اور عامل اپنے معمول کے دماغ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے ،شینا کو اپنے دماغ میں چبھن سی محسوس ہو رہی تھی ، جیسے وہاں کوئی رینگ رہا ہو ، کوئی کلبلا رہا ہو مگر وہ برداشت کرتی رہی ، مینٹلزم میں محور وہ کنکشن ہوتا ہے ، عامل و معمول کا کنکشن اور شینا ظاہر ہے معمول تھی !

وہ اتنا کچھ پوچھنا چاہتی تھی کہ سمجھ ہی نہ آ رہا تھا کہ پہلا سوال کیا کرے …تنگ آ کر اس نے پوچھا

‘مجھ پر کالا جادو ہے یا نہیں ؟’

‘ ہے ‘ میڈم نے جواب دیا

‘ کس نے کروایا ہے ؟’ شینا پوچھے بغیر نہ رہ سکی

‘ تمھارے سوتیلے چچا نے کروایا ہے -‘ میڈم نے سرد لہجے میں بدستور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوے کہا

‘ کیا؟ مگر کیوں ؟ او مرے خدا …یہ کیسے ختم ہو گا ؟’ شینا نے قدرے پریشان ہو کر پوچھا

میڈم ہلکا سا مسکرائی ‘کیوں کا جواب تو ابھی نہیں مل سکتا – ہاں یہ سفید جادو سے ختم ہو گا ‘

‘ سفید جادو کیا ہے ؟ میڈم پلیز بتاییں ؟’

‘ سفید جادو ایک ریمیڈی یا کالے جادو کا توڑ ہوتا ہے – اس میں کچھ مخصوص عمل کرنے ہوتے ہیں، کچھ الفاظ بولنے ہوتے ہیں ، اور ٹرانزٹ کرنا ہوتا ہے ‘ میڈم نے مختصر بتایا

‘ کیا آپ مجھے توڑ بتاییں گی ؟ میری زندگی میں کچھ اچھا نہیں ہو رہا ، مجھ پر خون کے قطرے گرتے ہیں، چند سال پہلے مرے پاس سب کچھ تھا، اب نا والدین ہیں، نا پیسے ہیں ، محبت روٹھ چکی ہے ، نہ ہی ذہنی سکون ہے – میری محبت ادھوری رہ جاتی ہے – مجھے خوفناک خواب آتے ہیں میں بہت پریشان ہوں ، آپ تو جانتی ہیں کہ اچھی یادوں سے پیچھا چھڑانا کتنا مشکل ہوتا ہے ؟’ اور میں تو بس عذاب میں پھنس چکی ہوں- لگتا ہے زندگی نے ایک بھیانک مذاق سا کیا ہے ، پلیز میری مدد کریں ‘ شینا قدرے جذباتی لہجے میں کہ رہی تھی –

‘ شینا ! کالا جادو ہمیشہ ایک ‘ سورس یا ذریعے ‘ سے ممکن ہوتا ہے – وہ سورس جب ایکٹو ہو، تو تباہی شروع ہو جاتی ہے – وہ سورس کچھ بھی ہو سکتا ہے ، تمہاری ایک تصویر ،سر کے بال، یا کوئی شیطانی مشروب میں شامل چیز جو تمھارے خون کا حصہ بن جائے ، یا سورس کسی بھی فارم یا چیز میں تمھارے قریب چھپا دیا جاتا ہے ، جہاں تم رہتی ہو وہاں ہو سکتا ہے – تو سورس کو پکڑنے تک اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا ، ہاں ریمیڈی سے اس کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے ‘

‘ اور ریمیڈی کیا ہے میڈم ؟’ شینا کچھ مایوس ہو چکی تھی، میڈم فر چر کا یہ کہنا کہ اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا ، وہ ڈر چکی تھی

‘ ریمیڈی تمھیں تاکن بتا چکا ہے ‘ میڈم نے جیسے ہی ‘ تاکن ‘ کا نام لیا، شینا ایسے اچھلی جیسے کرسی میں سپرنگ لگے ہوں –

‘ آپ ..آپ !’ وہ گھبراہٹ میں اس سے زیادہ کچھ نہ کہ سکی ، اس کے ذہن میں دھماکے سے ہو رہے تھے – یہ کیسا پرسرار سا سلسلہ تھا-

‘ میں سب جانتی ہوں شینا !’ میڈم نے شاید پہلی بار نرم لہجے میں کہا ، پھر کچھ دیر بعد بولی ‘ مون ٹرانزٹ شروع ہو چکا ہے اور تم سول میٹ کے لیے منتخب ہو چکی ہو – میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ سکتی -‘

‘ یہ مون ٹرانزٹ ، یہ سول میٹ – یہ سب کیا ہے ؟’ شینا تجسس میں اپنے ایشو بھول چکی تھی – جبکہ میڈم فر چر حیران تھی کہ ‘ تاکن …نے اسے کچھ نہیں بتایا – آخر کیوں نہیں بتایا ؟ ‘ میڈم سوچنے لگی شاید کوئی مصلحت ہو گی کہ تاکن مکمل خاموش رہا – میڈم نے چند لمحے توقف کے بعد اٹھتے ہوے کہا ‘

‘شینا ! جب صحیح اور موزوں لمحہ ہو گا تم سب جان جاؤ گی تب تک انتظار کرو -کافی پیو گی ؟’

شینا نے سر اثبات میں ہلا دیا ٹوی میڈم نے کافی میکر سے کافی دو کپوں میں انڈھیلی اور ایک کپ شینا کو پیش کیا

‘ تم جانتی ہو تمھارے نیٹل چارٹ میں ‘آٹھواں گھر’ سب سے متحرک ہے اور اس میں ‘ جوپیٹر بھی ہے اورسن بھی ہے – آٹھواں گھر پرسرار علوم کا گھر ہے ، موت کا گھر ہے اور یہاں پر ان سیاروں کی موجودگی بہت حیران کن ہے – ایسے بندے کے پاس ایک گفٹ ہوتا ہے ، جیسے سلیمانی طلسم ہو، ماورائی انگوٹھی ہو ، ایسا بندا کسی کو بھی دیکھ کر اس کے اندر جھانک لیتا ہے – تمہاری یہ صلاحتیں کچھ عرصے بعد کھل کر سامنے آ جاییں گی – ‘ میڈم نے کافی کا سپ لیتے ہوے کہا – شینا دم بخود اسے دیکھے جا رہی تھی – میڈم فر چر نے شینا کا نیٹل چارٹ بنا کر دیکھ لیا تھا کہ شینا کے پاس گفٹ ہے – وہ تاکن کی چوائس پر داد دیے بغیر نہ رہ سکی- تبھی اس کے خیالات کو شینا کی آواز نے توڑ دیا

‘ مجھے تاکن کے بارے میں کچھ بتائیں ؟’

‘ میں خود اسے آج تک نہ جان سکی ، بس یہ یاد رکھو ، ہمارے مخالف متحرک ہو چکے ہیں – تو تم ان کا پہلا ٹارگٹ ہو ، اپنا خیال رکھنا !’ میڈم نے یہ کہ کر اسے جانے کا عندیہ دے دیا جبکہ شینا سوچتی ہی رہ گیی ‘ میں کیوں کسی کا ٹارگٹ ہوں ؟’ مگر میڈم کا سخت چہرہ اور انداز دیکھ کر پوچھنے کی ہمت نہ کر سکی –
وہ بوجھل قدموں سے اپنے ہاسٹل پہنچی، میڈم فر چر سے ہوئی ملاقات نے نئی الجھنیں پیدا کر دی تھیں – آخر اس کا کسی کے ٹارگٹ ہونے کا مطلب کیا تھا ؟ تاکن کیوں جنگلوں میں تنہا رہ رہا تھا – اس کی بھی کوئی زندگی ہو گی ، مون ٹرانزٹ کیا تھا آخر؟ زشینا سوچ سوچ کر بے حال ہو چکی تھی – مگر ان سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا -کمرے میں کیٹی موجود نہ تھی ، اس نے یونہی کیٹی کی الماری میں سے چند کتابیں نکالیں، بے توجہی سے الٹ پلٹ کر دیکھا – پھر بستر پر لیٹ گیئی ، چند لمحوں بعد اسے پیاس محسوس ہوئی ، اس نے فریج کا دروازہ کھولا تو فریج بند پڑی تھی، تمام مشروب گرم ہو چکے تھے – شینا نے جھنجلاہٹ میں فریج کو ہٹا کر اس کے پلگ کو دیکھنا چاہا ، اور جونہی وہ نیچے جھکی ، تو مٹی اور گرد سے اٹی فریج کے نچلے حصے میں زمین پر کوئی ڈبہ سے نظر آیا ، یہ کیا ہے ؟ اس نے سوچا – بڑی مشکل سے وہ اسے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی ، یہ ایک چند انچ کا چھوٹا سے سکوئر ڈبہ تھا، اس نے بیحد اشتیاق سے اسے کھولا ، تو بے اختیار اس کے منہ سے چیخ نکل گیی

ڈبے میں ایک گلا سڑا لیموں تھا، جس کے اندر لوہے کی نوکیلی کیلیں لگی ہوئی تھیں …شینا کے دماغ میں میڈم فرچر کے الفاظ گونجنے لگے

‘ شینا ! کالا جادو ہمیشہ ایک ‘ سورس یا ذریعے ‘ سے ممکن ہوتا ہے – وہ سورس جب ایکٹو ہو، تو تباہی شروع ہو جاتی ہے – وہ سورس کچھ بھی ہو سکتا ہے ، تمہاری ایک تصویر ،سر کے بال، یا کوئی شیطانی مشروب میں شامل چیز جو تمھارے خون کا حصہ بن جائے ، یا سورس کسی بھی فارم یا چیز میں تمھارے قریب چھپا دیا جاتا ہے ، جہاں تم رہتی ہو وہاں ہو سکتا ہے – تو سورس کو پکڑنے تک اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا ، ہاں ریمیڈی سے اس کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے ‘ …یہی وہ سورس تھا، شینا بڑے غور سے اس ‘ شیطانی سورس یعنی کیل لگے لیموں ‘ کو دیکھ رہی تھی -تبھی دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی – شینا نے دروازے میں لگے زوم سے باہر جھانکا تو ایک اجنبی شخص بلکل بت بنا کھڑا تھا – شینا اسے بلکل نہ جانتی تھی، اس کے ذھن میں اندیشے سر اٹھانے لگے – اس نے اونچی آواز میں پوچھا ‘ کون ہے ؟’ جواب ندارد – اس نے پھر زوم سے آنکھ لگائی تو وہ آدمی وہاں نہ تھا – چند لمحے بعد شینا نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر دروازہ کھول دیا – باہر کوئی نہ تھا، مگر شینا اس کارڈ کو دیکھ رہی تھی جو اس کے دروازے کی چوکھٹ پر پڑا تھا، اور اس پر ایک ‘ ڈنک اٹھاۓ بچھو ‘ کا نشان تھا جب اس نے ہاتھ میں کارڈ کو پکڑ کر غور سے دیکھا تو ایک ایڈریس اور وقت درج تھا ، نیچے ‘ڈی کروز سیکرٹ سوسایٹی ‘ کے الفاظ صاف صاف پڑھے جا سکتے تھے –

*************

مون ٹرانزٹ شروع ہو چکا تھا – تاکن ، اسی چٹان پر بیٹھا چاند کی روشنی میں نہایا ہوا تھا – اس کی آنکھیں مکمل بند تھیں – اس کے چہرے پر ایک الوہی مسکراہٹ تھی – تاکن زیر لب کچھ نامانوس سے الفاظ پڑھ رہا تھا – تبھی اس کے نتھنوں سے ایک گندی سی بو ٹکرائی- اس نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں – اور ناک سکیڑ کر ہوا میں کچھ سونگھنے لگا – چند لمحوں بعد اس کی مسکراہٹ کسی قدر طنزیہ ہو چکی تھی –

‘ تو تم آ ہی گیے ہو !’ تاکن بڑبڑایا – اس مکمل تنہائی میں جیسے کسی پرندہ کے پروں کو پھڑ پھڑ آنے کی آواز آئی – جیسے کسی نے اسے جواب دیا ہو – تاکن پھرتی سے اٹھا اور اس پہاڑی سے نیچے اترنے لگا، گھپ اندھیرے میں بھی وہ کافی تیز رفتاری سے بھاگ رہا تھا، جیسے اسے اندھیرے میں بھی نظر آتا ہو- یہ راستہ اس کے ہاتھوں کی طرح اس پر عیاں ہو –

چند لمحوں بعد وہ جنگل میں سے گزر رہا تھا – تبھی ایک درخت کے پاس پہنچ کر وہ ٹھٹھک کر رک گیا – اس کی نگاہیں اس درخت پر جمی تھیں – وہ ایک قدیمی ، شاید سو سال پرانا شجر تھا ، جس پر اس وقت کالی رات کی حکمرانی تھی – چاندنی بھی اس کے گھنے پتوں کو پار نہ کر سکی تھی، صرف اس کی کینوپی یا اوپر کا بالائی حصہ کسی حد تک روشن تھا – پھر گھپ تاریکی میں وہ کسی قلعے جیسا نظر آ رہا تھا – تاکن آھستہ آھستہ ، ایک ایک قدم بڑھا کر اس درخت کے قریب ہو رہا تھا – وہ اس قدر پھونک پھونک کر پیر رکھ رہا تھا جیسے نیچے کوئی بارودی سرنگ ہو ، یا سامنے کوئی غیر مرئی رکاوٹ ہو ، اگرچہ بظاھر وہاں کچھ نہ تھا – درخت کے قریب پہنچ کر اس نے با آواز بلند کچھ پڑھنا شروع کیا ہی تھا – کہ کوئی چیز اس درخت میں سے چیخیں مارتی نیچے دھپ کی آواز سے کودی – تاکن اپنی جگہ چٹان کی طرح کھڑا رہا اور پڑھتا رہا – گھپ اندھیرے میں اس کے بلکل قریب حرکت ہوئی ، پتوں پر چلنے کی آواز، تیز تیز سانس لینے کی آواز ، تاکن کو اپنے بلکل قریب سے آ رہی تھی – تاکن نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر ، درخت کی جانب کر کے ہاتھوں کو ایک جھٹکا سا دیا – جس کے ساتھ ہی چیخیں تیز ہو گیئیں اور پھر درخت سے نیچے زمین پر کودنے کی آوازیں آییں- اور پھر وہ آوازیں دور ہوتی گیئیں- جیسے کوئی کود کر وہاں سے بھاگ رہا ہو – چند لمحوں بعد تاکن نے ہاتھوں کوئی ایک اور جھٹکا دیا ، مگر کوئی حرکت نہ پا کر وہ درخت کے سامنے خاموشی سے ایستادہ حالت میں کھڑا گھورتا رہا – جب اس نے آخری بار ہاتھوں کو تیز انداز میں جھٹکا، تو اسے سنسناہٹ سی محسوس ہوئی ، اس کے بعد جیسے وہاں کی فضا میں سکون آ چکا تھا -بوجھ ختم ہو چکا تھا اور تاکن واپس مڑ کر جنگل میں اسی رفتار سے بھاگنے لگا – اس کا رخ اپنے ہٹ کی طرف تھا – چشمے کے کنارے اسے مادہ ہرن کا سر نظر آیا- وہ اکڑوں بیٹھ گیا ، اور ایسے ادھر ادھر دیکھنے لگا، تاکن کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں، وہ اب خلا میں دیکھ رہا تھا ، اس کی نظریں ٹھیک وہیں جمی تھیں جہاں سے مادہ ہرن پر حملہ ہوا تھا -اس کے چہرے کے تاثرات ایسے بدل رہے تھے جیسے وہ حملے کی پوری فلم دیکھ رہا ہو- پھر اس نے یوں سر ہلایا جیسے سب سمجھ گیا ہو – کچھ دیر وہیں رہنے کے بعد تاکن اٹھا اور ہٹ کی طرف چلنے لگا ، وہ کسی تیندوے کی طرح بغیر آواز کیے چل رہا تھا – ہٹ کے اندر اسے روشنی نظر آ رہی تھی ،کوئی تو اندر موجود تھا – اس نے نیچے جھک کر ایک پتھر اٹھایا اور اسے ہٹ کے کھلے دروازے کی طرف اچھال دیا ، پتھر ٹکراتے ہی اندر چیزوں کے الٹنے پلٹنے کی آوازیں آییں – تاکن خاموشی سے جائزہ لیتا رہا ، اس کی عقابی نگاہیں ہٹ کے کھلے دروازے پر جمی تھیں – اسی اثناء میں دروازے کو کسی نے دھکیلا اور تاکن نے جو دیکھا ، تو اس جیسے بہادر شخص کے بھی ڈر اور اضطراب سے رونگھٹے کھڑے ہو چکے تھے – اس کے چہرے کے تاثرات بگڑ چکے تھے ، اور اس کی مسکراہٹ مسخ ہو کر اذیت اور خوف میں بدل چکی تھی

*************

سات لوگ سر پٹ گھوڑے دوڑاتے چلے جا رہے تھے – وہ سب نقاب پوش تھے ، اور ان کی آنکھوں کے سوا پورا جسم چھپا ہوا تھا -دو رویہ راستہ ایک طرف جا کر اچانک مڑ گیا ، دونوں طرف بھربھری سی میٹی کی چٹانیں تھیں -جس کے بیچ و بیچ یہ راستہ چلتا جا رہا تھا -چند کوس طے کرنے کے بعد انھوں نے اپنی منزل دیکھ لی – اور باگہوں کو کھینچنا شروع کر دیا – یہاں ایک دربان کھڑا تھا جس نے انھیں دیکھتے ہی سر جھکا لیا – اس کے ہاتھ میں ایک مشعل تھی، جس کی ناکافی روشنی میں وہ دربان کے پیچھے موجود اندھی غار کو دیکھ سکتے تھے – وہ غار میں داخل ہوۓ تو پتھروں کی انسانی ہاتھوں سے بنی غار کی دیواروں پر عجیب خوفناک سی اشکال نمایاں ہونے لگیں – وہ ادھر ادھر بڑے چوکنے انداز میں دیکھتے چل رہے تھے – تبھی غار ایک شاندار سے ھال میں جا کر ختم ہو گیئی – یہ ھال نما جگہ بلکل روشن تھی ، اتنی روسشن کے ان کی آنکھیں چندھیا سی گیئیں- وہاں سات کرسیاں سلیقے سے رکھی تھیں، سامنے ایک پردہ تھا اور دربان یہں پہنچ کر واپس مڑ چکا تھا – انھوں نے اپنے نقاب اتارے -اور کرسیوں پر بیٹھ گیے -وہ مختلف ملکوں کے باشندے لگتے تھے -ان کے چہرے پر شدید تجسس نمایاں تھا – تبھی پردے کے پیچھے کسی کے قدموں کی چاپ قریب آنے لگی – ان کے دل کی دھڑکنیں تیزی ہو رہی تھیں – دفعتاً پردہ آہستہ آہستہ اٹھنے لگا اور ایک بھاری سی آواز آنے لگی – انھوں نے ایک عجیب و غریب ہیت کے شخص کو سامنے دیکھا – اس نے گلے میں سرخ اور کالے رنگ کی مالائیں پہنی تھیں، دونوں ہاتھوں میں لاتعداد انگوٹھیاں تھیں – اس کا سر بالوں سے بے نیاز تھا – اس کی فرنچ کٹ داڑھی تھی – دانوں اور مہاسوں کے علاوہ ، عیاری اور خباثت کے تاثرات اس کے چہرے پر ثبت تھے – وہ لنگڑا کر چل رہا تھا ، جیسے جان بوجھ کر ایک ٹانگ پر زور دے رہا ہو- اس کی ہیت اس قدر ڈراونی تھی وہ بھی کانپ گیے -اس کی آنکھیں انگارہ تھیں ، جیسے آگ سے دہک رہی ہو ں- وہ چند ثانیے انھیں نظروں ہی نظروں میں تولتا رہا پھر ہاتھ اٹھا کر بولا ‘خوش آمدید ‘ وہ نادیدہ انداز میں آگے جھکا

‘معزز مہمان ! ویلکم تو ‘چاچ کیسل (قلعہ ) ‘- میرا نام چنگیز احمد چوہان (چاچ ) ہے – میں آپ سب کو اس سفلی دنیا ، اس میجک وے میں ، چاچ قلعے میں خوش آمدید کہتا ہوں ‘ اس شخص نے اپنی انگارہ آنکھیں جھپکتے ہوے سر سراتی سی ڈرامائی گونجدار آواز میں کہا – وہ سب تعظیم میں جھک چکے تھے –

اس وقت ایک بلی وہاں نظر آئی اور بری طرح رونے لگی ، چاچ نے کچھ دیر بڑی دلچسپی سے اس کے رونے کو سنا جیسے وہ اس کو ڈی کوڈ کر رہا ہو –

‘ہمارا وار کاری ہے – تاکن اب تم نہیں بچ سکتے ‘ چاچ نے چیختی ہوئی آواز میں کہا – اس وقت اس کے ہاتھ میں گوشت کا ایک ٹکڑا نظر آیا جو اس نے بلی کی طرف اچھال دیا ‘ یہ لے تیرا انعام ‘ بلی نے لپک کر ٹکڑا اٹھایا اور خوشی سے آوازیں نکالتی چلی گیی –
‘ ‘ چاچ ‘ تبھی ایک زوردار آواز میں قہقہ لگانے لگا – یہ قہقہ ایسے تھا جیسے کوئی کنویں میں سے بول رہا ہو ، یا کسی کا گلہ گھوٹنے جیسا لہجہ ہو – وہ سات ابھی بھی تعظیم میں جھکے ہوے تھے !

*************’

ڈی کروز سیکرٹ سوسایٹی ‘ کے ممبران ہاتھوں میں ہاتھ دیے ایک دائرہ بنا کر بیٹھے تھے- ڈی کروز ان سے مخاطب تھا –

‘ یہ چاچ اور تاکن کی ازلی لڑائی ہے ، یہ خیر اور شر کی لڑائی ہے ، یہ کالے اور سفید جادو کا معرکہ ہے – وقت بہت کم رہ چکا ہے – مخفی علوم کے ماہرو ! تم صحیح راستے پر ہو – خارجی عوامل مر چکے ہیں – سب اندرونی بھید ہیں – اس حق و باطل کی جنگ میں علم ہی پل ہے – ایسا پل جس پر ہمیں خطرات ہی خطرات ہیں – اس مہم میں جان بھی جا سکتی ہے ، مگر ہم لڑے بغیر میدان نہیں چھوڑیں گے ، آج سے سب مون ٹرانزٹ کا عمل شروع کر دیں بولو کیا تم میرے ساتھ ہو ؟’

ڈی کروز نے جذباتی انداز میں’ ڈی کروز سیکرٹ سوسایٹی ‘ کے ممبران سے پوچھا

‘ ہاں ، ہم آپ کے ساتھ ہیں ‘ سب یک زبان ہو کر بولے – ڈی کروز نے ایک طرف خاموش بیٹھی ، میڈم فر چر کو دیکھا ، اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے –

‘ چاچ نے فرسٹ بلڈ گرا دیا ہے – جنگ چھڑ چکی ہے! ‘ میڈم فر چر نے اپنی مخصوص آواز میں صرف اتنا کہا -اور سب پھر مراقبے کی سی حالت میں واپس چلے گیے- ان کے چہروں سے پریشانی مترشح تھی – مون ٹرانزٹ کا عمل شروع کر دیا گیا تھا –

*************’
شینا ڈی کروز سیکرٹ سوسایٹی کے کارڈ پر دیے گۓ ایڈرس پر پہنچنے کے لیے تیار ہو چکی تھی – اس نے پرس میں وہ لیموں والا ڈبہ بھی رکھ لیا تھا، وہ ہاسٹل کے نیچے روڈ پر پہنچی – اسے ٹیکسی کا انتظار کرتے کافی دیر ہو چکی تھی – آج تعطیل کی وجہہ سے رش بھی کم تھا – شینا بار بار گھڑی دیکھ رہی تھی – صرف آدھ گھنٹہ ہی بچا تھا – وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ تبھی ایک کار اس کا سامنے آ کر رکی ، کار ایک خوش لباس نوجوان چلا رہا تھا – اس نے شینا کو لفٹ کی پیشکش کی ، عام حالات میں شاید وہ کبھی ایسے نہ کرتی مگر اس وقت ایک ایک لمحہ قیمتی تھا -اس نے شکریہ ادا کیا اور پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیئی – نوجوان نے کار بڑھا دی –

‘ مجھے ووڈز جانا ہے ‘ شینا نے نوجوان کو بتایا تو اس نے کہا وہ ووڈز کی طرف ہی جا رہا ہے ، شینا اطمینان سے سر کو سیٹ کے ساتھ ٹکا کر آرامدہ حالت میں بیٹھ گیئی – چند لمحوں بعد وہ اونگھنے لگی – اسے آج کل بہت نیند آ جاتی تھی- کچھ دیر بعد اسے نوجوان کی آواز سنائی دی –
‘مس ..آپ کا نام کیا ہے ؟’

‘ شینا ‘ اس نے خوش دلی سے جواب دیا –

نوجوان خاموش ہو چکا تھا -وہ بیک ویو مرر سے بار بار شینا کو دیکھا رہا تھا – چند لمحوں بعد شینا کو احساس ہوا کہ یہ راستہ ووڈز کو نہیں جاتا تھا اس نے حیرت سے پوچھا –

‘ یہ آپ کس طرف جا رہے ہیں ؟ ووڈز جانا ہے مجھے …’

‘ اب جدھر میں چاہوں گا ، ہم وہیں جایئں گے جان من! ‘ نوجوان نے شینا کو سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوۓ ، ہوس بھرے انداز میں جواب دیا –

””’تاکن””’
*************
(حصہ سوئم ) مصنف :کاشف علی عبّاس

شینا کی روم میٹ کیٹی بازار سے کچھ سامان لے کر جب واپس ہاسٹل پہنچی تو اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کے اس کے اپارٹمنٹ میں جو روڈ سے نظر آ جاتا تھا ، اس کی ونڈو تاریک تھی ، وہاں گھپ اندھیرا تھا ،جبکہ شینا یا کیٹی ہمیشہ ایک لائٹ آن رکھتے تھے – نیچے باقی کمروں میں روشنی تھی، صرف کیٹی والا اپارٹمنٹ تاریک تھا- وہ لفٹ پر سوار ہو کر اپارٹمنٹ کے سامنے پہنچی تو اسے ایک اور جھٹکا سا لگا ، دروازہ کھلا ہوا تھا، اس نے سرعت سے اندر داخل ہو کر لائٹس آن کرنے کے لیے سوئچ دبایا مگر وہاں کوئی لائٹ نہ جلی ، بدستور اندھیرا تھا، اس نے پرس سے ایمرجنسی ٹارچ نکال کر روشن کی اور کمرے میں ادھر ادھر گھمانے لگی، کمرہ خالی تھا، چیزیں الٹ پلٹ سی تھیں اور شینا کے بستر پر کمبل لیے وہ لیٹی تھی – کمبل سر سے پاؤں تک اس کو ڈھک رہا تھا، کیٹی نے آج تک شینا کو ایسے کبھی کمبل لیتے سوتے نہ دیکھا تھا،

‘ شینا…سب ٹھیک تو ہے ؟’ اس نے جونہی کمبل اٹھایا تو شینا کی جگہ ایک خوفناک شکل والی بوڑھی سی عورت پٹ پٹ اسے دیکھ رہی تھی – اس کے جھریوں بھرے چہرے پر زخموں کے نشان تھے – کیٹی چیخیں مارتی الٹے قدموں پیچھے بھاگی تو دروازے پر ایک شخص سے ٹکر ا گیئی – اس شخص کیٹی کی گردن دبوچ لی ، چند لمحوں بعد کیٹی بےہوش ہو چکی تھی –

‘ شینا کہاں ہے ؟’ کیٹی کو ہوش آیا تو سامنے موجود شخص نے طنزیہ لہجے میں کہا – کیٹی نے اپنی زندگی میں اتنا خوفناک چہرہ نہ دیکھا تھا، وہ اس کے سامنے بیٹھا تھا مگر اس کی آواز بیحد گھٹی گھٹی سی تھی ، جیسے دور سے آ رہی ہو ، جیسے کسی گہرے کنویں سے بول رہا ہو-وہاں عجیب سی بدبو بھی پھیلی تھی –

‘ تم کون ہو ؟’ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا –

‘چاچ ‘

‘ کک کون چاچ ‘

‘تمہارا قاتل ‘ چاچ نے مخصوص آواز میں قہقہ لگایا ، اس کا قہقہ بیحد ڈراونا تھا، اور کیٹی کو اس کے الفاظ سے زیادہ اس کی شکل اور انداز سے ڈر لگ رہا تھا

‘ مم – مجھے ببل- بلکل نہیں پتا وہ وہ …کک کہاں ہے ..’ کیٹی نے رک رک کر، اٹک اٹک کر جواب دیا

‘پھر تم میرے کسی کام کی نہیں ‘ چاچ نے اٹھتے ہوۓ کیٹی کی طرف بڑھتے ہوۓ سفاکانہ لہجے میں کہا

اس سے پہلے کیٹی کچھ کہتی ، چاچ نے ایک ہاتھ سے اس کی گردن کو پکڑا اور اپنے نوکیلے دانت کیٹی کے نرخرے میں گاڑ دیے – کیٹی درد سے چیخ مارنا چاہ رہی تھی مگر اس کی آواز جیسے ختم ہو چکی تھی -اس کی طاقت جیسے سلب ہو چکی تی، اس کے ہاتھ بے جان ہو کر لٹک رہے تھے – وہ حرکت ہی نہ کر پا رہی تھی – چاچ کی باچھوں پر خون کی لکیریں بن رہی تھیں – کیٹی پھر بے ہوش ہو چکی تھی ، شاید ہمیشہ کے لیے نہ اٹھنے کے لیے بے ہوش ہو چکی تھی – چاچ کی انگارہ آنکھیں تسکین کے احساس کے ساتھ چمک رہیں تھیں –

*************

‘ کلامی گاہ ‘ سے فضاۓ بسیط میں الفاظ کی گونج سنائی دے رہی تھی –

‘ انسان جب پہلی بار پیدا ہوا تو نوا نکور، صاف ٹکور، دھلا، اجلا ، نکھرا ، عیاں عیاں ، معصوم معصوم اور کھلے چہرے سمیت پیدا ہوا – پھر شیطانی منافقت نے اس کے چہرے کو علامتی کپڑے سے ڈھانپ کر، اس کو ایک گھٹیا منصب پر لے جا کر ، جہالت اور تعصب کی مذہبی گہرائیوں میں منھ کے بل جھونک دیا ، اس کے اعمال اس قدر بھیانک اور قابل افسوس تھے کہ لوگوں کا کانا ہو کر ، شرمندگی و خجالت میں منھ چھپا کر رسوا ہو گیا – خاک خاک چھاننے لگا اور اپنی شناخت کی تلاش میں دوسروں میں کیڑے نکالنے لگا ، اس کے داؤ پیچ ایسے سستے اصولوں سے مستعار تھے جو جاہلیت اور جنون میں پروان چڑھتے تھے – جن میں سے تعصب کی بو آتی تھی – اپنی قدر و منزلت کھو کر وہ حیوانیت اور سفلی دھندوں میں ملوث ہو گیا – یہاں تک کے اس کی روپوش ذات میں، دوسروں سے اوجھل ذات میں، منافقت اور جھوٹ کے گندے جراثیم پرورش پانے لگے اور ایک دن ——وہ اپنی اصل بھول کر ، ایک ذہنی مریض بن گیا جس کی نظر میں اپنی بات ہی صحیح و درست تھی – یہاں تک کے اس کے متعفن وجود میں منافقت کے جراثیم اب خوفناک کیڑے بنتے گۓ اور اس کا انجام ایک منافق کا سا تھا ، جس کے دو چہرے تھے ، ایک اصل اور گھٹیا بازاری چہرہ ، اور ایک جھوٹا اور شریف چہرہ جو زمانے کے سامنے رہتا تھا – اے دوہری زندگی بسر کرنے والے قابل رحم شخص ! آخر کونسی چیز تجھے حق کی چھلنی سے بچا لے گی ؟ ہر گز نہیں، اے تاریک اور گھپ اندھیرے کے سائے ! روشنی کا تجھ سے اور تجھ جیسوں سے کوئی تعلق نہیں ، تیری منافقت ہی تیری افسوسناک مرگ ہے ، اور تیری ایسی مرگ ہی تیرا اصل ٹھکانہ ہے ، جب وہی چہرہ رہ جایے گا جسے تو چھپاتا پھرتا تھا ، وہ اصل چہرہ اور وہ اصل فطرت کہ جس پر تو پیدا ہوا ، نہیں بدل سکتی ، نہیں چھپ سکتی !!!جذبہ ایک بیحد حسین انسانی فکری پہلو ہے ، محبت کا جذبہ ، عقیدت کا جذبہ اور قربانی کا جذبہ!’

مقرر نےٹھہری ٹھہری بیحد خوبصورت آواز میں حاضرین مجلس کے سامنے علم و دانش کے موتی بکھیرے –

یہاں پہنچ کر انھوں نے طائرانہ نظروں سے حاضرین مجلس کو دیکھا -سب بیحد احترام سے انھیں سن رہے تھے – یہ پاکستان کا ایک خاموش قصبہ تھا – جو پہاڑی سرسبز علاقوں اور تفریحی مقامات و قدرتی حسن سے سجا ہوا گشدہ سا مقام تھا – ‘ کلامی گاہ ‘ نامی جگہ پر لوگ دلجمی سے مقررکو سن رہے تھے –

‘ یہ جو کامل جذبہ ہے یہ ایک اور ہی چیز ہے ، ایک اور ہی منزل ہے – جذبات تو بہت ہیں ، مگر کاملیت کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے – جذبوں کا پرچار سب کرتے ہیں، مگر ان کا حق کوئی کوئی ادا کرتا ہے – اور جو ادا کر دیتا ہے اس پر ہزاروں سال اشک بہا کر بھی نرگس تشنہ خیز رہتی ہے، اپنے دیدہ ور کا انتظار کرتی ہے ، تو چمن جہاں میں جب وہ دیدہ ور آ جاتا ہے تو جذبوں کی کاملیت کا حقیقی مظاہرہ ہوتا ہے – عقل و خرد میں بھونچال سا مچ جاتا ہے ، اور دیدہ ور عشق میں نئی داستانیں رقم کر دیتا ہے – ‘ اقبال کے شعر کا حوالہ دینے کے بعد انھوں نے ہلکا سا تبسم کیا – ‘ ثانوی چیزیں، مرکب علم ، ملا جلا کر جذبوں کی حقیقت مت پرکھو – کاملیت کا دروازہ کھولو ، کامل بن جاؤ!’

یہ کہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوۓ ، لوگ التزام و احترام سے ، عمامہ باندھے عاجزی سے چلتے ، جھکی نظروں کے ساتھ چلتے اس عالم دین کمال شخص ‘ شیخ روح اللہ کلامی ‘ کو مجلس سے جاتا دیکھ رہے تھے –

‘ کامل بن جاؤ ‘ ایک آدمی بار بار ‘ شیخ روح اللہ کلامی ‘ کے ان الفاظ کو دہرا رہا تھا – وہ عجیب سی سرشاری کی حالت میں نظر آ رہا تھا – وہاں ایک خوشبو سی پھیلی تھی، اہل ذکر کی موجودگی کی مسحور کن خوشبو پھیلی تھی –

*************

لفٹ دینے والے نوجوان کی آنکھوں میں تیز چمک در آئی تھی- جبکہ شینا کا چہرہ سپاٹ رہا – اس وقت نوجوان اور شینا دونوں ہی اپنی اپنی سوچوں میں غرق تھے – شینا دل ہی دل میں اس لفٹ دینے والے نوجوان کی سادہ لوحی پر قہقے لگا رہی تھی- ڈر اور خوف جیسے ناموں سے اب وہ بلکل نہیں گھبراتی تھی – خاص طور پر تاکن کے ساتھ اس جنگل والے تجربے کے بعد وہ کسی بھی سچویشن سے خائف نہ ہوتی تھی – وہ ہر مسلۓ سے نکلنے کا حل تلاش کرنے کی عادت اختیار کر چکی تھی – شینا کو اسی وقت اپنی ناک پر گیلاہٹ سی محسوس ہوئی – وہ سمجھ گیئی کہ اس کے ازلی دوست وہ خون کے قطرے آ چکےتھے بلکہ اس کی ناک پر گر چکے تھے -یہ کالے جادو کے کریہ اثرات تھے -مگر اس کو ایک شرارت سوجھی اور اس نے اس دل پھینک اور لڑکیوں کو لفٹ کے نام پر تنگ کرنے والے نوجوان کو زندگی بھر کا سبق سکھانے کی ٹھان لی تھی اس دوران وہ نوجوان اپنی جگہ سہانے سپنے بن رہا تھا -اس کے چہرے سے بے انتہا ہوس ٹپکتی تھی ، وہ بیحد بہت خوش تھا، اسے اس قدر خوبصورت مال مل چکا تھا ، شینا جتنی حسین عورت اس نے کم کم ہی دیکھی تھی – وہ کار اپنے فلیٹ کی طرف اڑاۓ لے جا رہا تھا – اس کی باچھیں مسرت سے کھلی پڑیں تھیں مگر قسمت اس پر ہنس رہی تھی – شینا نے اچانک اس کو مخاطب ہوتے ہوے کہا

‘ ڈارلنگ ‘ شینا نے جان بوجھ کر وقفہ دیا ، ایک توبہ شکن انگڑائی سی لی ‘ ڈارلنگ ! جلدی چلو نہ …مجھ سے اب اور اتظار نہیں ہوتا ‘ اس کے لہجے میں جہاں بھر کی لگاوٹ تھی – وہ قدیم زمانے کی شہزادیوں کی طرح شاہانہ انداز میں بیٹھی ہوئی تھی – یہ سن کر نوجوان اپنی جگہ پہلو بدل کر رہ گیا ، وہ تو شینا کا رونا یا چیخنا یا ‘مجھے جانے دو ، مجھے چھوڑ دو ‘ جیسا ردعمل توقع کر رہا تھا – جبکہ شینا نے اس کے ہی انداز میں اسے ڈارلنگ کہ دیا تھا – وہ سمجھا شاید لڑکی مزاق کر رہی تھی …

‘ ہاں ہاں ، بس تھوڑی دیر انتظار کر لو ‘ اس نے بظاھر مسکراتے ہوے کہا مگر اس کے لہجے میں پریشانی صاف چغلی کھا رہی تھی – اس نے جیسے ہی بیک ویو مرر میں شینا کو دیکھا تو ڈرایونگ سیٹ پر اچھل سا پڑا – شینا کی ناک سے خون سا نکل رہا تھا – جب وہ کار میں بیٹھی تھی تب تو کوئی ایسی چیز نہ تھی -نوجوان نے سوچا

‘ اور کتنا انتظار ؟’ شینا نے بوریت سے کہا ، وہ نوجوان کی بدلتی حالت سے محظوظ ہو رہی تھی –

‘ یہ ..یہ تمھاری ناک سے خون نکل رہا ہے ‘ اس نے بمشکل یہ جملہ ادا کیا – شینا کچھ نہ بولی بس میٹھی نظروں سے نوجوان کو دیکھتی رہی –

نوجوان آہستہ آھستہ باقاعدہ ڈرنے لگا تھا – اسے یاد آیا کہ ووڈز میں تو کوئی انسانی آبادی نہ تھی- وہاں سواۓ مردہ لوگوں کے سوا کوئی نہ تھا – ووڈزمیں وہاں کا جنگل اور قبرستان ہی مشہور تھا – نوجوان اب ہلکا ہلکا سا کانپ رہا تھا ،اسے شینا کا چہرہ کسی چڑیل جیسا لگ رہا تھا – ایک طرف بہتا خون اور اوپر سے وہ جان بوجھ کر عجیب طریقے سے مسکرا بھی رہی تھی – اور نوجوان کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے قصائی ایک ذبح ہونے والے دنبے کو دیکھتا ہے –

تبھی اس نوجوان نے آخری تصدیق کی خاطر پوچھا ‘ تم ووڈز میں کہاں جا رہی تھی ؟’

‘وہیں جہاں کوئی ہمیں تنگ نہیں کرتا ‘ آہ وہ شہر خموشاں …جہاں میں کتنا عرصہ بھٹکتی رہی ، تم ہی تو میرے سول میٹ ہو ، تم ہی میری تنہائی کا سامان ہو!’ شینا کی اداکاری غضب کی تھی ، اور نوجوان نے کار کو فل بریک لگا دی ،کار ایک تیز جھٹکے سے کچھ دور گھسٹ کر ساکت ہو چکی تھی -اور نوجوان کی حالت خراب ہو چکی تھی –

‘ تو-تم-..چو-چڑیل ‘ وہ رو دینے والے لہجے میں بولا ، اس کا پورا جسم بید مجنوں کی کسی شاخ کی طرح لرز رہا تھا

شینا نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ؛ نہیں نہیں میں تو ایک معصوم سی لڑکی ہوں ، آؤ نہ ڈارلنگ، موج مستی کریں ‘

‘جہنم میں گیئی موج مستی ‘ نوجوان نے جل کر سوچا –

تبھی شینا پچھلی سیٹ سے اگلی سیٹ کی طرف آنے لگی اور نوجوان نے اسے ایسا کرتے دیکھ کر ایسے چیخیں ماریں جیسے موت کو دیکھ لیا ہو

‘، نہیں نہیں آگے مت آؤ … پلیز مجھے معاف کر دو، مجھے جانے دو ‘ وہ گھگیاتی ہوئی آواز میں ملتجی ہوا ، اس کے سر سے ہوس کا بھوت اتر چکا تھا ، اب اسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوے تھے –

شینا نے اس کی حالت دیکھی تو اسے لگا نوجوان بس لمحوں میں ہارٹ اٹیک کا منتظر پکا امیدوار ہو سکتا ہے ، کار میں پچھلی نشت میں ایک چڑیل کا تصور اور وہ بھی ایک ویرانے میں کسی کو بھی ڈرانے کے لیے کافی تھا -ایک ہارٹ اٹیک کے لیے کافی تھا –

شینا نے اس پر کچھ ترس کھاتے ہوے کہا ‘ ٹھیک ہے ، ایک شرط پر جانے دوں گی ، چپ چاپ مجھے ووڈز اتارو ‘ نوجوان نے اس تیزی سے سر ہلایا جیسےوہ کوئی بچوں کا کوئی کھلونا ہو، ایسا کھلونا جسے کافی دیر تک پوری جابی دے دی گیئی ہو،اور پوری رفتار سے کار ووڈز کی طرف بڑھا دی-

وہ دل ہی دل میں پچھتا رہا تھا آخر اس نے اس مصیبت کو گلے میں کیوں ڈالا ؟ وہ ایسے قصے اخبار میں پڑھ چکا تھا جب ایک نوجوان کی مسخ شدہ لاش کسی ویرانے میں پائی گیی، یا ایسی لاش جس کا سب خون نچوڑ دیا گیا ہو –

‘ خدایا …’ نوجوان نے شاید زندگی میں پہلی مرتبہ اتنے درد سے خدا کو پکارا تھا ‘ خدایا ، آج بچا لے بس …آئیندہ کبھی کسی کو لفٹ ہی نہیں دوں گا ، بس آج بچا لے ‘ وہ دل ہی دل میں گڑ گڑاتے ، روتے دعا مانگ رہا تھا ، جبکہ شینا آرام سے بیٹھی باہر کے مناظر دیکھ رہی تھی -وہ جانتی تھی کہ موت سے زیادہ موت کا خوف تکلیف دہ ہے – انجان سے زیادہ کوئی چیز انسان کو تانگ نہیں کرتی – کسی اور مخلوق سے واسطہ ہو اور وہ بھی ایسی مخلوق جس سے آپ کو بچپن سے ڈرایا گیا ہو تو انسانی شعور منطق کو بھول کر اپنے خوف کا پجاری بن جاتا ہے – نوجوان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا ، اسے یہ دل لگی بہت مہنگی پڑ چکی تھی – ووڈز گریو یارڈ پہنچ کر نوجوان نے اس کے آہنی پرسرار سے گیٹ کے سامنے کار روک دی – وہ اب بھی بری طرح گھبرایا ہوا تھا –

شینا نے قدرے تجسس سے اس گریو یارڈ کو دیکھا ، ڈ ی کروز سیکرٹ سوسایٹی کا یہی مسکن تھا –

‘ پلیز مجھے جانے دو ، پلیز اتر جاؤ ‘ نوجوان اس کے کار میں رہنے پر مزید پریشان ہو رہا تھا

‘ اور اگر نہ اتروں تو ؟ ‘ شینا نے اپنے دانت باقاعدہ نکوستے ہوے ، ہنستے ہوے کہا ، اس کے سفید سفید دانت نظر آتے ہی نوجوان کی سیٹی گم ہو گیئی ، وہ کوشش کر کہ بھی کچھ بول نا پا رہا تھا – الفاظ جیسے حلق میں اٹک سے چکے تھے –

‘ بولو نہ ڈارلنگ ؟ارے کچھ تو بولو ‘ شینا اسے صحیح سبق سکھانے پر تلی ہوئی تھی -‘ آؤ – میں تمھیں روسٹ بنا کر کھلاؤں – میں بہت اچھا روسٹ بناتی ہوں ‘ شینا ذرا آگے کو جھکی – مکمل سکوت تھا، اور قبرستان کے سامنے رکی کار کے علاوہ کوئی نہ تھا –
اور ڈارلنگ کی تو خوف کے مارے روح قفس عصری کو بس پرواز ہی کرنے والی تھی – نوجوان نے بے اختیار دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا، وہ ایسے حرکت کر رہا تھا جیسے اس میں وائبرایٹر لگا ہو –

‘ آیندہ کسی لڑکی کے ساتھ ایسا کرو گے ؟ بولو ‘ شینا نے جب نوجوان کو روتے دیکھا تو سخت لہجے میں سوال کیا

‘ مم -مے -میری تو تو تو با ‘ وہ توبہ پر جیسے اٹک گیا تھا ‘ پلیز ..مجھے جانے دو میں آیندہ ایسا ..نہ نہ نہ نہیں کک کروں گا ‘ وہ ہکلاتے ہوے ، روتے ہوے، منت بھرے لہجے میں بول رہا تھا –

شینا نے چند لمحے اسے گھورا اور کار کا دروازہ کھول کر نیچے اتر آئی ، چند لمحے تک کار میں کوئی حرکت نہ ہوئی ، شاید نوجوان ابھی تک اس شاک سے ہی نہ نکلا تھا کے اس چڑیل نے اس کو اتنی آسانی سے بخش دیا تھا –

تبھی شینا کار کی فرنٹ سیٹ پر جھکی ‘ ڈارلنگ…جانے کو دل نہیں کر رہا تو آؤ اندر ، تمھیں روسٹ کھلاؤں ‘ اس نے فرنٹ سیٹ کے شیشہ کو کھٹکھٹاتے ہوے بڑے پیار سے کہا – تو نوجوان جیسے اچانک ہوش میں آ گیا ، اس کی افیم کی پینک ٹوٹ چکی تھی، اس نے اتنی تیزی سے کار چلائی جیسے پوری زندگی سرکس میں کار چلاتا رہا ہو ، چشم زدن میں وہ نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا ، اور شینا جو کافی دیر سے اپنی ہنسی روک رہی تھی، کھلکھلا کر ہنس دی

‘ بیچارا ‘ اس نے صرف اتنا کہا اور قبرستان کے گیٹ کو دھکیل کر اندر داخل ہو گییئی –

*************

اپنے ہٹ سے باہر نکلتے تاکن نے ‘ اسے ‘ دیکھا، وہ ایک سیامی کالی بلی تھی – اس کی سرخ سرخ آنکھیں تاکن پر فوکس تھیں ، اس کے دانتوں سے کچر کچر کی آوازیں آ رہی تھیں ، کالی بلی کی بیحد خوفناک غراہٹ تاکن کے اعصاب پر سوار ہو چکی تھی – ‘یہ وہی ہے ‘…تاکن جیسے ماضی میں کہیں کھو سا گیا- اسے وہ سب سالوں پہلے بھیانک واقعات یاد آنے لگے

‘مسٹر تاکن’ کسی نے اسے پکارا

تین اگست کا وہ دن جب وہ ٹرینٹی کالج میں لیکچر دے کر باہر گھاس کے میدان میں موجود سٹوڈنٹس کی چہل پہل دیکھ رہا تھا -تاکن جدید تراش خراش کے ڈارک تھری پیس سوٹ پہنے ہوا تھا، کلین شیو، نفاست سے کٹے بال اس کی وجاہت میں اضافہ کر رہے تھے – سٹوڈنٹس لکڑی کے بینچ پر خوش گپیاں کر رہے تھے، ادھر ادھر درختوں کے نیچے بیٹھے تھے- کچھ چہل قدمی کر رہے تھے ، تبھی کسی نے اسے پکارا’ مسٹر تاکن ‘ – وہ مڑا…

‘مسٹر تاکن؟ ‘ ایک اجنبی لڑکی نے کنفرم کرنے والے انداز میں پھر کہا – اس لڑکی کا لباس ، انداز اور حسن سب بیحد شاہانہ تھا –

‘ یس؟’ تاکن نے مزید شاہانہ انداز میں مسکراتے ہوے کہا –

‘ویل مسٹر تاکن ! … میری کچھ ہیلپ کر سکتے ہیں آپ؟ ‘ عجیب تحکمانہ ، بے فکری لیے ، قدرے شوخ لہجے میں کہا گیا ، جیسے تاکن وہاں کا کوئی سٹوڈنٹ ہو ، ایک پاپولر پروفیسر نہیں -اگرچہ جب بھی وہ تاکن کہتی، اس کی آواز میں ایک لوچ سا آ جاتا ، اور تاکن جو ہر گز دل پھینک نہ تھا، اسے یہ انداز اچھا لگ رہا تھا – پھر بھی اپنی حیثیت کو دیکھتے ہوے وہ قدرے درشتی سے بولا –

‘ جو بات بھی ہے ، جلدی کہو – میرے پاس وقت کم ہے ، میرا لیکچر شروع ہونے والا ہے ‘ انداز جتا دینے والا تھا –

‘مجھ پر بھوت سوار ہے – ہیلپ می مسٹر تاکن ‘ لڑکی نے اسی کھوے کھوے انداز میں کہا –

‘ وہاٹ ربش (کیا بکواس ہے ؟)’ تاکن کا پارہ چڑھ چکا تھا – ‘ چلو بھاگو یہاں سے ! ڈونٹ ویسٹ مائی ٹائم ‘ یہ کہ کر وہ آگے بڑھ گیا

مگر لڑکی نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوے کہا ‘ میں سنجیدہ ہوں مسٹر تاکن ! مجھے آپ کے قیمتی وقت کا احساس ہے مگر پلیز وہ بھوت مجھے مار دے گا ، ہیلپ می ‘ لڑکی تو جیسے اس کے پیچھے ہی پڑ گیئ تھی – تاکن نے اپنا ہاتھ چھڑایا ، لڑکی کا ہاتھ برف کی طرح سرد تھا –

‘ میں یہاں فزکس پڑھاتا ہوں ، ایک پروفیسر ہوں …کیا میں تمھیں کوئی ‘ گھوسٹ کیچر یا گھوسٹ ہنٹر ‘ (بھوت پکڑنے والا ) نظر آ رہا ہوں پاگل لڑکی ؟’ تاکن نے اسے گھورتے ہوۓ کہا، مگر لڑکی پر جیسے اس انداز کا کوئی اثر نہ ہوا –

‘ آپ ابھی گھوسٹ ہنٹر نہیں ہیں مگر جلد ہی بن جائیں گے – ‘ لڑکی کا لہجہ پرسرار تھا -‘ آج شام پانچ بجے ، ویسٹ سٹریٹ پارک میں ، میں آپ کا انتظار کروں گی ‘ یہ کہ کر وہ تیز تیز چلتی آگے بڑھ گیئ – تاکن سرد انداز میں ، کچھ کچھ حیران وہیں کھڑا رہا –

‘ میرا نام ‘ فیری ‘ ہے میں آپ کا انتظار کروں گی – مسٹر تاکن! یاد رکھیے گا پورے پانچ بجے !’ اس لڑکی نے دور جا کر اونچی آواز میں کہا – ٹاکن نے غصے میں دانت پیسے

‘ ہونه گھوسٹ ہنٹر ؟ فضولیات ..بلڈی سٹوپڈ …’ تاکن کا موڈ خراب ہو چکا تھا –

وہ پورا دن تاکن نے اپنی مصروفیات میں گزارا ، پھر وہ اس لڑکی والی ملاقات کو یکسر فراموش کر چکا تھا- جب اس شام وہ اپنے آرامدہ گھر میں سو رہا تھا تبھی اس کا سیل فون بجنے لگا – اس نے کسلمندی سے آنکھیں ملیں ، وقت دیکھا تو پانچ بج رہے تھے ، اس نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا –

‘ یس ؟’ تاکن نے نیند میں ڈوبی آواز میں کہا –

‘ سر ! جون بول رہا ہوں ، ابھی کیمپس پہنچیں ، ایک سٹوڈنٹ کی لاش روم نمبر پانچ میں ملی ہے ‘ دوسری طرف کسی نے گھبراۓ لہجے میں کہا

‘ اوہ ویری بیڈ ‘ ٹاکن نے افسوس بھرے انداز میں کہا – ‘ کیا نام ہے اس کا ؟’ تاکن نے پوچھا

‘ دوسری طرف سے جون نے جو کہا ، تاکن کی نیند اڑانے کو کافی تھا –

‘ اس کا نام ‘ فیری ‘ہے سر !’

تاکن کے ہاتھ سے سیل فون گر گیا ، وہ متوحش نظروں سے ٹک ٹک کرتی کلاک کو دیکھ رہا تھا – جس پر پانچ بجے تھے اور وہاں وقت رک گیا تھا – جبکہ سویاں حرکت کر رہی تھیں ، گھڑی بظاھر چل رہی تھی مگر ٹائم رک گیا تھا – تاکن نے تب کافی خوف محسوس کیا تھا –

وہاں ایک بھیانک نسوانی چیخ نے اس کے خیالات کا سلسلہ روک سا دیا -تاکن کو جیسے ہوش سا آ گیا – وہ ابھی بھی جنگل میں اسی چشمے کنارے کھڑا تھا- سامنے تاکن کا ہٹ تھا- اور وہ بلی اسی کھا جانے والی نظروں سے تاکن کو ڈرانے کے لیے موجود تھی – تبھی وہ نسوانی چیخ پھر آئی اور عجیب سے لہجے میں جیسے کوئی جملہ کہا گیا – پھر ایک رونگھٹے کھڑی کر دینے والی غراہٹ آئی –

‘ تم …وہاں ..بھوت…مدد …نہیں ….موت … ..’ تاکن نے اس عجیب جملے کو ڈی سائفر کر لیا تھا –

پھر پانچ قہقے سنائی دیے ، ہر قہقہ پچھلے سے خوفناک سا تھا ، اور پھر ایک کشتی یا فیری چلنے کی آواز گونجنے لگی – تاکن جانتا تھا فیری کی روح اپنی موت کا شکوہ کر رہی ہے – تاکن کے وہاں نہ پہنچنے کا شکوہ کر رہی ہے –

وہ بلی تبھی اپنی جگہ سے اچھلی اور اس نے تاکن پر حملہ کر دیا – تاکن اس حملے کے لیے تیار نہ تھا، وہ بلی اس کے سینے پر اپنے پنجے گاڑ چکی تھی – تاکن کو لگا جیسے اس کے سینے پر کوئی بحری جہاز جتنا وزن لاد دیا گیا ہو ، وہ لڑکھڑایا اور زمین پر گر گیا – اس کے سینے میں شدید جلن ہو رہی تھی ، وہ بری طرح تڑپا اور اپنے ہاتھوں کو گول گول گھمانے لگا ، اس بظاھر عجیب سی حرکت پر، کیوں کہ اس نے بلی کو ہاتھ تک نہ لگایا تھا -مگر اس ہر حرکت پر بلی کی گرفت کمزور ہونے لگی – تبھی تاکن نے ایک دل شگاف نعرہ لگایا اور اٹھ کھڑا ہوا ، بلی دور جا کر گریتھی ، وہ زخمی ہو چکی تھی ، مگر اس کی غراہٹ ، ہلکی سی غراہٹ ابھی بھی آ رہی تھی – تاکن کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی –

‘ آؤ فیری- چلو سیر کرتے ہیں ‘ اس نے بلی سے مخاطب ہو کر کہا ‘ بلی نے زخمی غراہٹ میں جواب دیا ، مگر تاکن نے ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھا لیا تھا – اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی، فراخ پیشانی پر لکیروں کا جال سا بنا تھا – تاکن گہری سوچ میں ڈوبا نظر آ رہا تھا –

*************

شینا کچھ دیر ووڈز گریو یارڈ کی قبروں کے ساتھ ساتھ موجود پگڈنڈی پر چلنے کے بعد کافی فاصلے پر مدھم سی روشنی دیکھ چکی تھی ، وہ روشنی کو فوکس میں رکھ کر اسی طرف چلنے لگی – چند ثانیے بعد وہ ڈی کروز سیکرٹ سوسایٹی کی اس میٹنگ میں موجود لوگوں میں سے ڈی کروز اور میڈم فر چر کو پہچان سکتی تھی -وہ سب اس الاؤ کے گرد جمع تھے-اس کی آمد پر کسی نے کچھ نہ کہا ، وہ سر جھکاۓ بیٹھے رہے ، ان کے چہروں مہروں سے سنجیدگی ٹپکتی تھی – پہلی کرسی صدارت خالی تھی ، وہ کرسی خاص طور پر نمایاں تھی، سب سے بڑی نشت جس پر رنگین پر لگے ہوے تھے – باقی لوگ عام کرسیوں پر براجمان تھے – شینا سمجھی شاید یہ اسی کے لیے ہے –

جونہی وہ اس کرسی پر پر بیٹھنے لگی ، میڈم فر چر نے کرخت آواز میں کہا ‘ ٹھہرو! یہ تمھاری جگہ نہیں ہے ‘

ایک ممبر اسی وقت ایک اور عام سی کرسی شینا کے لیے وہاں رکھ چکا تھا ، شینا شرمندہ شرمندہ اس ممبر کی لائی کرسی پر بیٹھ چکی تھی ، اس کی خوشفہمی کا غبارہ پھوٹ چکا تھا، اور وہ مسکراہٹ جو اس لفٹ والے نوجوان سے شرارت کے بعد اس کے چہرے پر موجود تھی ، ختم ہو چکی تھی – وہ ہونٹ بھینچے خاموش میٹنگ کی کاروائی دیکھنے لگی ، اس نے اتنی سختی سے لب بھینچ رکھے تھے جیسے زندگی بھر اب کبھی نہ بولے گی –

‘تم جانتی ہو یہ کس کے لیے خالی ہے ؟’ میڈم فر چر نے شاید شینا کے اندرونی جذبات سمجھتے ہوے کہا ، شینا نے خاموشی سے کندھے اچکاۓ جیسے کہ رہی ہو ‘ میری بلا سے جس کی بھی ہو مجھے کیا ؟’

‘ یہ تاکن کی کرسی ہے – سالوں سے ہم اس انتظار میں ہیں کہ شاید وہ کبھی یہاں ہمارے ساتھ پھر سے موجود ہو – ہم اسے بہت مس کرتے ہیں ، تو اس امید میں کہ وہ کبھی تو آۓ گا ، یہاں بیٹھے گا اور ہم اس کے وجود سے علم کے موتی چن لیں گے ‘ میڈم فر چر نے گلوگیر آواز میں کہا،

شینا نے آج تک اسے اتنا جذباتی نہ دیکھا تھا- وہ تو جیسے ایک پتھر کی عورت تھی جس پر انسانی جذبات کا مغالطہ کرنا ہی ناممکن تھا، مگر آج پتھر ٹوٹ چکا تھا ، اور ‘تاکن ‘کے علاوہ یہ بت شکن اور کون ہو سکتا تھا –

دوستو! مون ٹرانزٹ کا آغاز ہو چکا ہے ، چاچ اور اس کے کالے کارندے پوری طرح متحرک ہو چکے ہیں ، ہمیں اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ‘ ڈی کروز نے صورتحال کو سوگوار ہوتے دیکھ کر مداخلت کی ، اور موضوع بدل دیا

‘آپ لوگ پلیز مجھے بتا دیں یہ مون ٹرانزٹ کیا ہوتا ہے ؟’ اچانک شینا خود پر قابو نہ رکھ سکی ، میڈم فر چر نے ڈی کروز کو اشارہ سا کیا –

اور تبھی باقیوں کی حیرت کا سامان بنتے ہوے ڈی کروز بڑی تفصیل سےشینا کو سمجھاتے ہوۓ کہ رہا تھا –

‘سنو اور غور سے سنو شینا ! مون ٹرانزٹ ،ستاروں اور سیاروں اور گھروں میں مون (چاند) کی حرکت کے حساب کا نام ہے – جبکہ سن ٹرانزٹ ، ستاروں اور سیاروں اور گھروں میں سن (سورج) کی حرکت کے حساب کا نام ہے- مون ٹرانزٹ ‘ اپنے ادھورے گمشدہ حصے سے ملنے کا وقت ہے ‘ اپنے سول میٹ سے ملنے کا وقت ہے- مگر پہلے اس علم کی بنیادی چیزیں سمجھ لو … اوکے ؟’ ڈی کروز نے استفہامیہ نگاہوں سے شینا کو دیکھتے ہوۓ کہا –

اور پھر تیز تیز لہجے میں کہنے لگا

‘دیکھو ایسے سمجھو جیسے تین دائرے ہیں ، تین سرکل ہیں جو ایک دوسرے پر ٣٦٠ ڈگری پر لپیٹ دیے گیے ہیں، دائرے کے اندر دائرہ ہوتا ہے-
نیٹل چارٹ کیلکولیٹر سے آپ ان تینوں کو دیکھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں –

١- پہلا دائرہ ہاروسکوپ کے حکمران ١٢ مستقل ستاروں یا برجوں کا ہے جیسے اسد ، جوزا ، لبرا وغیرہ
٢- دوسرا دائرہ بارہ گھروں کا ہے، جیسے پہلا، دوسرا گھر اور ہر گھر کا اپنا مطلب ہے
٣- تیسرا دائرہ وہاں موجود سیاروں کا ہے ،جیسے مریخ، جوپیٹر وغیرہ ، کچھ شاندار ہیں اور کچھ برے اثرات ڈالتے ہیں
مزید براں مختلف علامتیں ہیں جو نیٹل چارٹ میں موجود ہوتی ہیں ، ڈگری ، مڈل ہیون ، وغیرہ ان کا اپنا خاص مطلب ہے

اصل میں آسٹرالوجی میں اس مخصوص وقت اور جگہ کا حساب لگایا جاتا ہے جب کوئی شخص انجان کا برج کراس کر کے معلوم یعنی اس دنیا میں آ جاتا ہے – پیدا ہو جاتا ہے -تو اس کی پیدایش کے لمحے ستارے کونسے گھروں میں تھے اور مون اور سن کہاں پر تھے – اس وقت ستاروں کی کیا پوزیشن ہوتی ہے ، یہ حساب لگایا جاتا ہے – ستارے ہر وقت حرکت میں ہوتے ہیں – اور کچھ خاص سیارے جن پر ہمارا ملکی وے بنا ہے ان کی تعداد بارہ ہے جو سورج کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں – ان میں زمین بھی ہے اور ہمارا چاند بھی ہے – زمین کا صرف ایک چاند ہے، کچھ سیاروں کے ٥ چاند تک دیکھے گیے ہیں – مون ٹرانزٹ میں اصل کھیل چاند کا ہے ، اور وہی تنہا ہیرو ہے – بارہ گھروں میں مستقل ستاروں، مختلف سیاروں کی موجودگی کے مختلف مطالب ہیں – ہر گھر ایک خاص خصوصیت کو پیش کرتا ہے –

جیسے پہلا گھر انسان کی ذاتی خصوصیات اور دنیا میں اس کی حقیقت اور موجودگی سے ملے عوامل کو بتاتا ہے -اس گھر کو اسیسنڈنٹ بھی کہتے ہیں اسیسنڈنٹ کا مطلب ہے ابھرنے والا، یہیں سے سورج یا سن ابھرتا ہے تو ہر شخص کے برتھ چارٹ میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ، یہ بہت اہم گھر ہے اور ٣٦٠ ڈگریز میں ٩٠ ڈگری کا پہلا اینگل یا گھر ہے- یہاں کی ورڈ ‘ ذات ‘ ہے ، انسان کی اپنی ذات کا گہرائی میں جائزہ، انسان کی فطرت ، اصل فطرت یہیں سے پتا چلتی ہے -دوسرا گھر پیسے اور مالی طور طریقوں کو ظاہر کرتا ہے، انسان نے کتنے پیسے کماۓ ، کہاں خرچ کیے اور کتنے کماۓ گا ، یہاں کی ورڈ ‘ دولت’ ہے – تیسرا گھر بہن بھائیوں ، تعلقات ، تعلیم وغیرہ کو ظاہر کرتا ہے -یہاں انسان کے چھوٹے چھوٹے سفر بھی ظاہر ہوتے ہیں اس گھر کا ‘کی ورڈ ”کمیونیکشن’ ہے -چوتھا گھر خاندان، آبائی خصلتوں اور باپ سے متعلق ہے ، انسان کے پرکھوں کے بارے میں سب کچھ یہیں سے پتا چلتا ہے .پانچواں گھرانسان کی محبت، مشغلے اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے ، یہاں کی ورڈ ‘ محبت ‘ ہے چھٹا گھر انسان کی نوکری، روزمرہ کے مشاغل اور صحت سے جڑا ہوا ہے- کی ورڈ ‘ نوکری یا جاب ‘ ہے ساتواں گھر یہ کمال اہمیت کا حامل ہے اور پہلے گھر کے بلکل متضاد جگہ واقع ہے،جونکہ یہ نیٹل چارٹ پر بلکل الٹ واقع ہوتا ہے تو جیسے پہلے گھر کو اسیسنڈنٹ بھی کہتے ہیں اسیسنڈنٹ کا مطلب ہے ابھرنے والا، یہیں سے سورج یا سن ابھرتا ہے تو ساتویں گھر کو ڈیسنڈنٹ یا اترنے والا ، سورج ڈوبنے والا گھر کہتے ہیں، کیوں کہ یہاں سورج ڈوبتا ہے – ساتواں گھر انسان کی شادی ، دوسروں سے تعلقات ، آپسی معاملات کو ظاہر کرتا ہے -آٹھواں گھریہ سب سے پرسرار گھر ہے ، یہاں پر سیاروں کی موجودگی سب سے خطرناک اثر رکھتی ہے – یہ زندگی اور موت ، پرسرار مخفی علوم ،ڈارک سیکرٹس، جنسی اور جذباتی زندگی ، افیرز ، مابعد طبیعات یا مٹا فزیکل دنیا میں میں دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے -یہ مخفی علوم کی زبردست سیکھنے کی خوایش کو ظاہر کرتا ہے …’
اتنی طویل تقریر کے بعد ڈی کروز ایک لمبی سانس لیتے ہوے یہاں رک گیا، وہ معنی خیز انداز میں کچھ سوچ رہا تھا –

‘ شینا ، اسی آٹھویں گھر میں تمہارے سب سے زیادہ سیارے ایکٹو ہیں ‘اچانک میڈم فر چر نے مسکراتے ہوے کہا، شینا ہلکے سے مسکرائی ‘ اور تاکن کی بھی بلکل یہی پوزیشن ہے سیاروں کی – حیرت ہے! ‘ یہ بات میڈم نے قدرے آہستہ آواز میں کہی جو شینا نہ سن سکی – وہ اب تک حیرت میں ڈوبی، ڈی کروز کی اس عجیب و غریب تقریر کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ، یہ صرف ایک مخفی علم کی بنیادی باتیں تھیں اور کتنے ہی مخفی علوم کو وہ زبانی جانتی تھی -تاروت کارڈز ، نیٹل چارٹس .پامسٹری ، آسٹرالوجی ، نیومرولوجی اور علم جفر ، سپرچلزم تو بس نام ہی نام تھے -وہ چاہتی تھی ، ڈی کروز اسے باقی چار گھروں کے بارے میں بھی بتاۓ ، وہ چاہتی تھی کہ وہ یہ حیرت ناک چیزیں سنتی رہے – ایک عجیب سا احساس اس کے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا -مگر ڈی کروز شاید بولتے بولتے تھک چکا تھا تو بولنے کی بجاۓ وہ پریزنٹیشن موڈ میں آ گیا ، اس نے ایک تصویر جو پلے کارڈ پر بنی تھی ، ڈرامائی انداز میں سب کو دکھائی، اس میں گھر، ستارے اور سیارے سب نظر آ رہے تھے –

drawing-4

رات کا وقت، خوفناک قبرستان ، اور یہ تصویر ، یہ تقریر …شینا کو جیسے ہنسی سی آ چکی تھی ، یہ سب کیا بھید ہے آخر؟ وہ لبوں کو چبا چبا کر سوچنے لگی –

ایک ممبر نے ڈی کروز کی خاموشی دیکھی تو اٹھ کر بولا ‘ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی گھر میں کوئی سیارہ ہی نہ ہو ، اور ایک گھر میں سب اکٹھے ہو جائیں -ہر سیارے کی اپنی خصوصیت اور مزاج ہے ، جیسے پلوٹو ایک بیحد شنادار اثر دینے والا سیارہ ہے ، اگر وہ کسی اچھے گھر میں ہے تو کافی عرصہ تک رہنے والا ہے تو ایسا شخص سب چیزوں میں کمال رکھتا ہو گا، شہرت اور دولت ،کامیابی اس کی باندیاں ہوں گی – کیوں کہ پلوٹو کا مطلب ہی چالبازی سے اپنا کام نکالنا ہے ، ایسا انسان جس کی نیٹل چارٹ میں ایسی پوزیشن ہو ، اپنے مقصد کے حصول کے لیے سب کچھ کر سکتا ہے ، کسی حد تک بھی جا سکتا ہے – تو پلوٹو کا سب سے اچھا گھر ‘ دسواں گھر’ یا ‘تینٹھ ہاوس ہے ‘ اور برا گھر ‘ پہلا یا فرسٹ ہاؤس ہے ‘ تیسری چیز ہے ، بارہ مختلف سائن ، یا سمبل یا حکمران مستقل ستارے یا برج جنھیں عام زبان میں ‘اسد جوزا کینسر وغیرہ کہا جاتا ہے ‘ تو اس طرح ان تین دائروں میں یا چکروں میں برتھ چارٹ یا نیٹل چارٹ منتقسم ہوتا ہے – ان سب کا حساب لگا کر ماضی ، حال اور مستقبل کو جانا جا سکتا ہے -‘ ممبر اپنی جگہ پر بیٹھ چکا تھا –

‘ صحیح کہا ‘ ڈی کروز نے اس ممبر کو تحسین آمیز انداز میں دیکھتے ہوے کہا، پھر تھوڑا آگے جھکا ‘ نیٹل چارٹ ، پیدائش کے وقت ستاروں کی پوزیشن اور آج کل ستاروں کی پوزیشن کا تقابلی جائزہ لے کر ہم اپنی زندگی میں تبدیلوں کو دیکھ سکتے ہیں، پڑھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں ، کیوں کہ ستارے کو منازل ہیں ، اور یہ ازل سے ابد تک ہیں ، یہ چلتے رہتے ہیں ‘

‘ ستارے جھوٹ نہیں بولتے ، ڈی کروز ‘ شینا نے تاکن کی خالی کرسی کو دیکھتے جیسے بلا ارادہ کہ دیا ، سب اسے اچنبھے سے دیکھنے لگے اور ڈی کروز ہلکا سا ہنس دیا – مگر وہ کچھ نہیں بولا، شینا نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوے کہا

‘ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ میں خود اپنا نیٹل چارٹ سمجھ سکوں ؟’

‘ گوگل سرچ انجن پر ‘ فری نیٹل چارٹ ریڈنگ’ ٹائپ کرو ، اور اپنی صحیح تاریخ پیدائش ، وقت، جگہ اس نیٹل چارٹ کیلکولیٹر میں لکھو – تو تم اپنا نیٹل چارٹ دیکھ سکتی ہو – بنیادی فری رپورٹ بھی پڑ ھ سکتی ہو – آج ہی گھر جا کر کوشش کرنا ‘ میڈم فر چر نے اسے سمجھاتے ہوے کہا – شینا کو یہ سن کر کافی اچھا لگا –

‘ مگر یاد رکھنا ، یہ بنیادی یا مفت معلومات ہیں ، تفصیل صرف ایک ماہر ہی بتا سکتا ہے – اس کے لیے تمھیں ان علوم کو سیکھنا ہو گا- ‘ میڈم فر چر نے شینا کو اپنی کھڑ کھڑ آتی آواز میں تنبیہ کی -شینا نے بچوں کی طرح ہاں میں سر ہلایا باقی ممبرز شینا کی دلسچسپی اور تجسس دیکھ کر مسکرا رہے تھے – وہ جانتے تھے یہ لڑکی کوئی خاص چیز ہے ورنہ میڈم فر چر اور ڈی کروز سے اس طرح فرینک ہو کر باتیں کرنے کا موقع انھیں سالوں میں کبھی نہیں ملا تھا – نہ انھوں نے ڈی کروز کو اس طرح تقریر کرتے دیکھا نہ میڈم فر چر کو یوں ہر سوال کا جواب دیتے دیکھا تو وہ سب ایک خوشگوار حیرت میں تھے- ماحول کی تلخی، شینا کی آمد کے بعد ، کسی حد تک کم ہو چکی تھی –

‘لیکن غیب کا علم صرف خدا کو ہے ‘ اس مانوس سی آواز پر سب چونک سے گئے، انھوں نے مڑ کر دیکھا تو ‘ تاکن ‘ آھستہ آھستہ مخصوص انداز میں چلتا ہوا ان کے قریب آ رہا تھا- اس کے چہرے پر ایک الوہی سی مسکراہٹ سجی ہوئی تھی – شینا کا دل بری طرح دھڑکا – تاکن کو دیکھتے ہی وہ کچھ عجیب سا محسوس کرنے لگتی تھی – ایک ایسی کیفیت جس کو کوئی نام دینے سے وہ قاصر تھی – میڈم فر چر اور ڈی کروز ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے !’ تم آخر واپس آ ہی گۓ تاکن – اوہ تاکن میں آج بہت خوش ہوں! ‘ میڈم فر چر بار بار دل میں کہ رہی تھی –
” تم سب ‘ میری دوست ‘ فیری ‘ سے ملو ” تاکن نے مخصوص کرسی پر بیٹھتے ہوے ایک سیاہ بلی اپنی پشت پر موجود چمڑے کے تھیلے سے نکال کر سب کو دکھاتے ہوے کہا – بلی کی نظریں ‘ شینا’ پر رک سی گیئیں تھیں – شینا کو پہلی بار ڈر لگ رہا تھا – اس نے تاکن کو دیکھا تو اسے لگا جیسے تاکن اس بلی اور شینا کے درمیان اس تعلق کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو –

تاکن نے تبھی مسکراتے ہوۓ کہا –
‘ یہ بلیک انرجی میڈیم ہے ‘ اور شینا کے سوا وہاں سب کے سب بشمول میڈم فر چر ، چونک سے گیے تھے – شینا اس بلی کی وجہہ سے وہاں موجود نروسنس ، سنجیدگی، تلخی اور گھبراہٹ کو تاکن کے علاوہ سب کے چہروں پر محسوس کر سکتی تھی – اس سے پہلے کے کوئی کچھ کہتا گڑ گڑاہٹ کی آواز کے ساتھ ، وہاں ہر طرف سے ، ان پر عجیب و غریب سائے حملہ آور ہو چکے تھے -ایک بھگڈر سی مچ چکی تھی – شینا نے بے اختیار اٹھنا چاہا تو ایک انگارہ جیسی آنکھوں والے سائے نے اسے اپنی قاتلانہ گرفت میں لے لیا – شینا کو لگا کہ اس کا سانس رک رہا ہے ، اور وہ مرنے والی ہے!

””تاکن””’
*************

(حصہ چہارم-4 ) مصنف (ناول) :کاشف علی عبّاس

کیٹی کی زندگی کی لو بھجھ رہی تھی ، قطرہ قطرہ موت اس کی گردن سے خون بن کر ٹپک رہی تھی – چاچ کے دانت کسی مقناطیس کی طرح اس کی گردن میں پیوست تھے –

‘ آقا چاچ ‘ چاچ کو کسی نے بیدردی سے بازو پکڑ کر جھنجھوڑا – وہ غراتے ہوے بولا ” بکو! ‘

‘ کیا آفت آ گیئی ہے ؟ ‘ اس کے چہرے سے ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی بچے سے اس کا من پسند کھلونا چھین لیا ہو – ان سات نقاب پوشوں میں سے ایک نے ادب سے کہا

‘ ہماری شکار شینا ہے ، اس لڑکی کو بلاوجہہ مارنے سے قانون حرکت میں آ سکتا ہے ، فضول کی الجھنیں پیدا ہو سکتی ہیں …’

چاچ نے غصیلے انداز میں بیہوش پڑھی کیٹی کو اور پھر اس نقاب پوش کو دیکھا – چند ثانیے اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے- جیسے وہ فیصلہ نہ کر پا رہا ہو – آخر بد دلی سے ، ایک برا سا منھ بنا کر، اس نے کیٹی پر گرفت ہلکی کر دی –

‘ تاکن کا کچھ پتا چلا ؟’ اس نےجھٹکے سے کیٹی کو پڑے دھکیلا اور بد دلی سے بستر سےاٹھتے ہوۓ سخت لہجے میں کہا –

‘ وہ جنگل میں نہیں ہے ! شاید ہمیں اس کی کھوج میں نکلنا پڑے گا ‘ ایک نقاب پوش کے لب ہلے ہی تھے کہ چاچ اپنی مکروہ ہنسی ہنستے ہوۓ دوہرا سا ہو گیا

‘ نکلنا پڑے گا ؟ نالائقو …کالے ساۓ اسے ٹریس کر کے اس پر حملہ آور بھی ہو چکے ہیں ، اور تم یہاں نکلنا پڑے گا ، یہ کرنا پڑے گا کی بکواس کر رہے ہو – مجھے افسوس ہوتا ہے ، تم کس دھڑلے سے خود کو سفلی علم کا ماہر کہتے ہو ‘ چاچ کے لہجے میں طنز کی بھرپور کاٹ تھی – نقاب پوشوں نے کھسیانے ہو کر گردن جھکا لی –

‘ اب چلو بھی ، یا یہیں رام لیلا سجانی ہے ؟’ چاچ نے انھیں ٹہوکا مارتے ہوۓ بڑی بدمزدگی سے کہا، اور لنگڑاتے ہوۓ دروازے سے باہر نکل گیا – وہ سات بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے- بیہوش پڑی کیٹی کی گردن پر دانتوں کے نشان تھے جن سے لہو قطرہ قطرہ گر رہا تھا –

*************

کلامی گاہ ایک سرسبز پہاڑی پر ، خوشنما درختوں کے تلے ، پھولوں کے کنج سے سجا ہوا ایک گھر تھا -گھر سے کچھ دور نیچے تک سنگی سیڑھیاں جاتی تھیں، جو اس پگڈنڈی سے ملتی تھیں جو سڑک سے متصل ہوتی تھی – لہٰذا کار وغیرہ سڑک تک ہی رک جاتی تھیں، اور پھر کچھ لمحے پگڈنڈی پر پیدل سفر کرنے کے بعد ، سنگی سیڑھیوں پر چڑھ کر ، کلامی گاہ کے بلکل سامنے ، اس لکڑی کے خوبصورت سے گیٹ تک پہنچا جا سکتا تھا، گیٹ کے اندر ایک دلکش باغ تھا جس میں لکڑی کے بینچ زمین میں گڑھے ہوے تھے -، باغ کراس کرتے ہی ایک لمبا کوریڈور یا برآمدا تھا جس میں ایک ھال نما کمرہ تھا ، جس کی بغل میں ایک قدرے چھوٹا کمرہ تھا جو مستورات کے لیے مخصوص تھا ، برامدے اور ھال میں کرسیاں اور میزیں رکھی تھیں، خدام ادھر ادھر مہمانوں کی میزبانی کو تعینات تھے، وہیں قہوہ اور چاۓ پیش کر رہے تھے ، اس برامدے اور ہال نما کمرے کے اختتام پر رہائش گاہ کے کمرے موجود تھے – اس وقت کافی تعداد میں لوگ باغ، برآمدے اور کمرے میں موجود تھے ، یہ سب سائل تھے جو اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے – وہاں اتنا ہجوم ہونے کے باوجود مکمل خاموشی تھی، اور صرف شیخ کلامی کی آواز اس سکوت کو توڑتی تھی -ھال نما کمرے میں دیواروں پر آیات اور دیگر اسلامی تصویریں لگی تھیں، فرش پر دبیز قالین بچھا ہوا تھا، بلکل آخر میں ایک خوبصورت سا منبر تھا –

مگر شیخ کلامی اس منبر کے قدموں میں دوسرے لوگوں کے ساتھ تشریف رکھتے تھے ، ان کی گردن عجز سے جھکی لگتی تھی ، اور وہ ہر سائل کو مفصل جواب دیتے جا رہے تھے – کسی کو تنبیہ فرماتے، کسی کی اصلاح کرتے مگر ہر سائل کی حیرانی کے لیے، ایسے سائل جو قریبی شہر سے گھنٹوں کا سفر کر کے یہاں موجود تھے، وہ نہ تعویذ دے رہے تھے ، نہ فیس مانگی جا رہی تھی ، جلی حروف سے لکھا ‘ فی سبیل الاللہ ‘ جگہ جگہ روشن تختیوں ، چوکھٹوں اور فریموں میں ان سائلین کی حیرت کو دوگنا کر رہا تھا – اگرچہ یہ خوشگوار حیرت تھی ،دل بھانے کو کافی تھی – اگر کسی سائل نے کوئی خاص پرسنل یا پوشیدہ چیز پوچھنی ہوتی تھی، تو وہ ایک چٹ پر لکھ دیتا جو شیخ کلامی تک پہنچا دی جاتی تھی ، پھر اگر وہ مناسب سمجھتے تو وہیں جواب بول دیتے ورنہ اسی چٹ کی پشت پر لکھ دیتے ، یوں کسی کی بے پردگی بھی نہ ہوتی تھی اور اس کا مقصد بھی پورا ہو جاتا تھا -مگر نام بتانے کی شرط تھی، ہر سائل کو اپنا مکمل نام بتانا یا لکھنا پڑھتا تھا –

شیخ کلامی کے ساتھ ان کے بھائی شیخ جامی، بیٹا شیخ حیدر اور چند مقربین زمین پر بیٹھے تھے – دروازے پر موجود خادم نے سائل کے آنے کی اطلاع دی – یہ سائل میاں بیوی تھے – انھوں نے آتے ہی شیخ کلامی کو بڑی عقیدت مندی سے سلام کیا، شیخ نے گرم جوشی سے جواب دیا اور پھر ان سے ان کی آمد کی غرض دریافت کی –

‘ سرکار ، رزق بند پڑا ہے ، نوبت فاقوں کو آ پہنچی ہے – جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں ، نقصان ہی اٹھاتا ہوں- بیوی کی طبیعت الگ خراب رہتی ہے – بچے بھی بیمار رہنے لگے ہیں ، سرکار میں بہت تکلیف میں ہوں ، میری مدد کریں …کوئی وظیفہ عنایت کر دیں ‘ اس شخص نے درد بھرے لیجے میں اپنی کتھا سنائی – حاضرین شیخ کلامی کے چہرے پر ہلکی سی کبیدگی دیکھ رہے تھے ، چند لمحوں والی بشاشت ان کے چہرے سے مفتود ہو چکی تھی – مگر ان کی نگاہیں ہنوز جھکی ہوئی تھیں –

‘ مجھے ‘سرکار ‘ مت کہو’ کافی دیر بعد ان کے لبوں پر یہ پہلا جملہ تھا ‘ میں تم سا ہو ں ، ایک عام سا انسان ہوں – مدد صرف الله سے مانگو،کیوں کہ صرف وہی قادر ہے اور مدد پر وہی قدرت رکھتا ہے – میں تو صرف اس کی پاک ہستیوں کا وسیلہ دے کر دعا کر سکتا ہوں ‘ شیخ کلامی نے یہ کہ کر ہاتھ دعا کو اٹھا لیے ، وہاں موجود سب لوگوں نے ان کی تقلید کی – دعا ختم ہوئی تو دونوں میاں بیوی اٹھ کر جانے لگے تبھی شیخ نے سوال کیا ، ٹھہرے اور نرم لہجے میں پوچھا ،

‘تمہارا نام کیا ہے ؟’

‘ شاکر علی ‘ اس شخص نے جواب دیا

شیخ کلامی چند لمحے خاموش رہے پھر شاکر علی کو دیکھتے ہوے کہنے لگے ‘ ہر نماز کے بعد ان دو اسماۓ مبارکہ (الحسیب اور الفتاح )کا ورد کثرت سے کیا کرو ، کم سے کم ٥٠٠ مرتبہ – انشاللہ سب بہتر ہو گا ‘ وہ دونوں میاں بیوی مطمئن سے ہو کر ، خوش خوش وہاں سے چلے گۓ –

‘شیخ صاحب ، یہ کیا بھید ہے ؟آپ نے تو کہا تھا صرف دعا کروں گا ، مگر آپ نے تو وظیفہ بھی بتا دیا – کیا اس سے کوئی فرق پڑھے گا ؟ ‘ وہاں موجود ایک نۓ سائل نے سوال کیا – وہ چند لمحے پہلے ہی وہاں آیا تھا اور اس کاروائی کو چپ چاپ دیکھ رہا تھا –

شیخ کلامی نے ایک نظر اس سائل پر ڈالی اور مسکراۓ ‘ اس بھید کو علم جفر کہتے ہیں’

وہ شخص معذرت خوانہ انداز میں کہنے لگا ‘ شاید مجھے یہ نہیں پوچھنا چاہیے ، مگر مرے علم میں اضافہ کریں ، مجھے علم جفر کے بارے میں بتاییں ‘

‘ کیوں نہیں ، بیشک علم ایسی دولت ہے جو خرچ ہونے پر مزید بڑھتی ہے ‘ شیخ صاحب نے خوش دلی سے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا ، سب ان کی طرف متوجہ تھے اور ان کا بیٹا،شیخ حیدر ، خاص طور پر منہمک انداز میں انھیں دیکھ رہا تھا –

‘ دیکھیں ، علم جفر امام جعفر صادق علیہ سلام سے منسوب ہے- علم جفر کے دو حصے ہیں، ایک علم جفر حروف ابجد کا علم ہے – یہ بھی امام جعفر صادق علیہ سلام سے منسوب ہے – حروف ابجد میں عربی زبان کے حروف جیسے ، الف، واؤ کو ایک خاص قیمت دیتے ہیں جو ہندسوں میں ہوتی ہے، اس طرح ان حروف کے مرکب ایک نام ، کوئی بھی نام ہو ، اس کے ہندسے معلوم کر لیے جاتے ہیں – جیسے

ا =١ ، ب =٢، ج =٣، د =4 ……..ہ =٥ ، و =٦ ، ز =7 …..ح =٨ ، ط =٩ ،ی =١٠ وغیرہ

ک =٢٠، ل =٣٠ ، م =40 ، ن =٥٠ ….. اور ض=800 ، ظ =900 ، غ =1000 وغیرہ شامل ہیں

اسی طرح ہر حرف کی قیمت ایک ہندسہ ہوتی ہے – یاد رکھیں، ہر حرف کی قیمت ایک عدد ہے –

یہ تو پہلا مرحلہ ہوا ، دوسرے مرحلے میں الله کے ٩٩ صفاتی نام جو کائنات میں سب سے زیادہ طاقتور اسماء مبارکہ ہیں، الله سبحانہ کے کچھ نام جمالی ہیں، جیسے الکریم، الرحیم – کچھ نام جلالی ہیں جیسے المنتقم ، القھار ہیں -ان ناموں کے بھی حروف ابجد کی مدد سے ہندسوں میں قیمت نکال لی جاتی ہے – تو ہر اسماۓ حسنہ کے نام کا حروف کے چارٹ کی مدد سے ایک ‘ عدد ‘ نکل لیا جاتا ہے -اور ہر شخص کے نام کے کل اعداد کا ہندسہ اور ان صفاتی ناموں کے کل اعداد میں مطابقت دیکھ کر چند نام پڑھنے اور ورد کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں ، یہ ہر مشکل کا اکسیر اور روحانی حل ہے –

اب جو سائل کچھ دیر پہلے آیا تھا ، اس کا نام شاکر علی تھا، اس کے دونوں ناموں کے اعداد چارٹ پر درج حروف کی قیمت سے جمع کر لیں تو بنتے ہیں ٦٣١ …

شاکر= کل اعداد ٥٢١ (ش +ا +ک +ر =300 +1 + 20 +200 =521 )

علی = کل اعداد ١١٠ (ع +ل +ی = 70 +30 +10 = 110 )

شاکر علی (میزان)= 631

دوسرے مرحلے میں اس عدد کو الله سبحانہ کے اسماۓ مبارکہ کے اعداد سے ملا کر دیکھتے ہیں ، جیسے شاکر علی کے حروف ابجد کے اعتبار سے کل اعداد بنے ٦٣١ تو الله کا کوئی مبارک نام ٦٣١ عدد کا نہیں ، اس لیے دو یا تین اسماء جوڑ کر ہم ٦٣١ بنا سکتے ہیں – جیسے الحسیب کے اعداد ہیں ١١١ + الفتاح کے اعداد ہیں ٥٢٠ = میزان ٦٣١ تو شاکر علی کے لئے ہر نماز کے بعد ان دو اسماۓ مبارکہ (الحسیب اور الفتاح ) کا ورد تجویز کیا ،اس کے علاوہ بھی ایک ‘ روحانی کوڈ ‘ بن جاتا ہے جس کا ورد ، الله سبحانہ کے ناموں کی برکت سے اسے مشکل سے نجات مل جاتی ہے – یہ انشاللہ اس کے حق میں بہتر ہو گا -‘ شیخ کلامی نے تفصیل سے بتاتے ہوے کہا –

‘ بابا جانی ‘ ان کے اب تک خاموش بیٹھے بیٹے نے کہا ‘ آج کل انٹرنیٹ پر ‘ ابجد نومرلز یا ابجد حروف کیلکولیٹر ‘ با آسانی مل جاتے ہیں ، جہاں کوئی بھی اپنے نام کے کل اعداد جان سکتا ہے ‘ شیخ کلامی نے اپیار سے س کا کاندھا تھپکا اور کہا ‘ یہ تو اور بھی اچھا ہے ، مجھے تو زبانی یاد ہیں مگر اس طرح ہر کوئی اپنے مکمل نام کے حروف کے اعداد جان سکتا ہے ‘

شیخ کلامی نے تبھی شہادت کی انگلی سے دیوار پر لگے ایک فریم کی طرف اشارہ کیا، جہاں یہ لکھا تھا ‘ بیشک الله کے ذکر سے دل کو سکون ملتا ہے ‘…متصل فریم میں یہ الفاظ چمک رہے تھے ‘ الله کو اس کے ناموں سے پکارو ، بیشک اس کے سب نام اچھے اور عظیم ہیں ‘ حاضرین محفل ان کا پیغام سمجھ چکے تھے –

‘ علم جفر کا دوسرا حصہ ایسا علم ہے جب ایک خاص وقت میں پوچھے گیے سوالات کا جواب تلاش کیا جاتا ہے ، وہ بیحد دقیق اور پیچیدہ ہے، پھر کبھی موقعہ ملا تو انشاللہ ضرور عرض کروں گا -‘ شیخ صاحب نے پانی کا گلاس ہاتھ میں پکڑتے ہوے کہا ،

ساتھ بیٹھے شیخ جامی نے ادب سے سوال کیا ، ‘ بھائی! کچھ ”اسم اعظم ” کے بارے میں ہمارے علم میں اضافہ کریں ‘

”اسم اعظم ”کا سوال سن کر شیخ کلامی کے تاثرات بدل سے گئے ، وہ ایک کیف میں ڈوبے نظر آ رہے تھے

‘ جانتے ہو جامی، علم کیا دولت ہے ؟ ایسی دولت جس کے بارے میں شہر علم نبی کے دروازہ علی نے فرمایا ‘ علم سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ، اور جہالت سے بڑھ کر کوئی غریبی نہیں ‘ آہ ..’ شیخ کلامی کچھ آبدیدہ ہو ہو چکے تھے ‘ یہ وہ خاص علم ہے …جس کی مدد سے ہزاروں سال پہلے حضرت سلیمان کے وزیر آصف بن برخیا نے پلک جھپکنے جتنے عرصے میں …اتنے کم عرصے میں ، ہزاروں میل دور یمن کی ملکہ سبا کا وزنی تخت …دربار سلیمانی میں حاضر کر دیا تھا …سلیمان کے سامنے پیش کر دیا تھا – تم جانتے ہو جامی ، یہ علم کیا دولت ہے ؟ کیا بڑی دولت ہے ؟’

اس دوران شیخ حیدر ، جو یونیورسٹی میں فزکس پڑھتا تھا ، بولا ‘ بابا جانی …اسے ہم کیا کہیں ؟ وہ تخت اتنی تیز رفتاری سے وہاں پہنچا، ہزاروں میل کا سفر کر کے وہاں ایک یا دو سیکنڈوں میں پہنچا تو یہ ‘ روشنی کی رفتار ‘ پر سفر کر کے ہی پہنچ سکتا ہے – فزکس بتاتی ہے، روشنی کی رفتار ( ٨ 3×10 ) میٹر پر سکنڈ کائنات میں سب سے تیز رفتار ہے یہ سورج سے لگ بھگ آٹھ منٹوں میں زمین پر پہنچتی ہے وہ سورج جو اربوں نوری سال دور ہے ہم سے ، بہت دور ہے ! صرف آٹھ منٹ میں وہاں سے روانہ پہلی کرن یہاں تک پہنچ جاتی ہے – نظریہ اضافت میں این سٹائن نے کہ دیا تھا ‘ کائنات میں ہر چیز اضافی ہے …ٹائم اور سپیس یعنی آپ جنھیں زمان و مکان کہتے ہیں – یہ ایک دوسرے سے ریلٹو ہیں، تو اس روشنی کی رفتار پر سفر ‘ اسٹرل باڈیز’ ہی کر سکتی ہیں ، کیا میں صحیح ہوں ؟’

شیخ کلامی نے اثبات میں سر ہلایا ‘ یہی سچ کا حسن ہے ، اسے فزکس سے ثابت کر لیں یا مذہب سے حق پہچان لیں – معراج تو روشنی کی رفتار ، جیسے تم کہ رہے ہو حیدر ، ویسے ہی اسی رفتار پر سفر تھا – تخت لاہوتی سے زمین تک کا سفر تھا اور جب وہ واپس پہنچے، بستر گرم تھا – یہ چند لمحوں کے کروڑوں میل کا سفر حق تھا – آخر روشنی کی رفتار کا خالق کون ہے ؟ روشنی کا ، رفتار کا ، اور انھیں ماپنے والے اذہان کا خالق تو الله ہے ، اس کی مرضی ہے ، چاہے تو روشنی کی رفتار سے لاکھ گنا تیز رفتار ایجاد کر دے – آخر فرشتے جو اس کے تخت تک اڑتے ہیں، یہ سفر ایک دن کا ہے جو ہمارے دنوں میں ہزار دن کا ہے جیسے کتاب پاک میں بتلایا گیا ، تو روشنی کی رفتار سے بھی تیز رفتاریں ہیں، ابھی آگاہی نہیں ، انشاللہ ہو جاۓ گی ‘

‘ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید …کن فیکون ‘ ان کے چھوٹے بھائی نے شیخ جامی نے مسکراتے ہوۓ اقبال کا شعر پڑھا –

‘ حیدر تم نے ابھی کہا ، آٹھ منٹ میں سورج سے روانہ پہلی کرن زمین سے ٹکراتی ہے ؟’ شیخ کلامی نے پہلے جامی کو داد و تحسین سے دیکھا، پھر حیدر سے سوال کیا – اس دوران سب لوگ بڑی دلچسپی سے اس خاموش قصبے میں کائنات کے امور پر علمی بحث سن رہے تھے –

شیخ حیدر نے جواب دیا ‘ جی ‘

‘ تو یہ ٹکرا کر پلٹ جاتی ہے …صحیح ؟ ‘

‘ جی ہاں ، بابا جانی! کچھ کرنیں آلودگی کی وجہہ سے ٹریپ ہو جاتی ہیں، جسے گرین ہاؤس افیکٹ کہتے ہیں جس سے زمین کا مجموعی درجہ حرارت بڑھتا ہے – بقیہ روانہ ہو جاتی ہیں – روشنی کی کرن جب کسی چیز سے ٹکرا کر واپس آتی ہے ، ہمارے آنکھوں میں لوٹتی ہے، تب ہی ہم اسے دیکھ سکتے ہیں ‘ ،حیدر نے جواب دیا شیخ حیدر ایک بیحد زہین طالب علم لگتا تھا-

‘اگر ہم کائنات میں ، جو ابھی نا تمام ہے …ایک ایسی جگہ پر موجود ہوں، جہاں ماضی کی روشنی کی کرن اب پہنچی ہو -جہاں زمین سے پانچ ہزار یا ٣ ہزار سال یا چودہ سو سال یا 70 سال پہلے روانہ ہوئی روشنی کرن اب پہنچی ہو …تو اس تھیوری کے مطابق ہم حضرت موسیٰ کو بھی دیکھ سکتے ہیں ، اور قائد اعظم کو بھی دیکھ سکتے ہیں – تاریخ کو پھر سے دیکھ سکتے ہیں کیوں کہ یہ واقعات وہاں رونما ہوے جہاں وہ روشنی کی کرنیں پہنچ گیئیں- وہاں نہیں جہاں ابھی پہنچیں ہیں یا مستقبل میں پہنچیں گی ‘ شیخ کلامی نے اپنے ہی بیٹے کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا – وہ منھ کھولے انھیں دیکھ رہا تھا

‘ بابا جانی ‘ شیخ حیدر نے طویل سانس لی ‘ بلکل ایسا ممکن ہے ! کیوں کہ کائنات اتنی بڑی ہے کہ ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں ہزاروں سال پہلے وہ کرنیں جو زمین پر ٹکرائیں ابھی تک نہیں پہنچیں – مگر ایسی جگہ پر بذات خود پہنچنا ہی نا ممکن ہے- اس کے لیے لاکھوں میل ، نوری سال کا سفر کرنا ہو گا کائنات میں ،،،آگے اور مزید آگے .. ویسے این سٹائن نے یہ بات کسی اور پیراۓ میں کی تھی، اس نے ٹائم ٹنل کا کہا، آپ ایک لوکیشن کی بات کر رہے ہیں مگر آیڈیا ایک ہے .’ شیخ حیدر کا سر ہی سوچ سوچ کر چکرانے لگا تھا –

‘ ناممکن ، ممکن سے پہلے کا ایک لمحہ ہے – صرف ایک لمحہ ہے اور کچھ نہیں….جامی اسم اعظم اسی علم خاص کا نام ہے جو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے – ‘ شیخ کلامی نے شفقت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوے جواب دیا – چند لمحے محفل پر سکوت رہا پھر اچانک لوگ جیسے ہوش میں آ چکے تھے –

‘ سبحان الله ‘ سب نے یک زبان ہو کر کہا ‘ماشاللہ ‘ سائل کے لہجے میں تحسین ہی تحسین تھی –

‘ تمام تعریف صرف الله کے لیے ہے ، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ‘ شیخ کلامی عجز و جذب کے عالم میں تھے-

‘بیشک بیشک ‘ سب سر ہلا کر ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے – سوال پوچھنے والے شخص کی آواز سب سے اونچی تھی –

*************

اس شور و غل میں شینا کو گلہ گھٹنے کا احساس اس کالے ساۓ کی گرفت میں آنے کے بعد ہوا تھا – مگر تبھی تاکن چیختا ہوا اس ساۓ سے آ ٹکرایا ،سایا بھاگ نکلا اور شینا اس کی گرفت سے آزاد ہوتے ہی ، گلے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ، کچھ بےدم سی ، وہیں زمین پر گر پڑی

‘فر چر ..حصار کھینچو – ڈی کروز پانی لاؤ ‘ تاکن نے چیختے ہوۓ ہدایات جاری کیں، اس کی نظریں شینا پر لگی ہوئیں تھیں، چہرے سے شدید پریشانی ٹپک رہی تھی – کالے سائے اس بھگڈر میں زخمی بلی کو اپنے قبضے میں کر چکے تھے- تبھی فر چر نے لکڑی کی چھڑی سے زمین پر ایک دائرہ سا بنانا شروع کر دیا، ایکب ممبر دوسری جانب سے ادھورے دائرے کو چھڑی سے ہی مکمل کرنے لگا – ڈی کروز پانی لایا تو تاکن نے چند چھینٹےکچھ پڑھ کر ، نڈھال پڑی شینا پر پھینکے –

‘ سب ٹھیک ہے ‘ وہ شینا کا ہاتھ تھامے ،نرم لہجے میں بار بار کہ رہا تھا ، فر چر اور ممبر زمین پر دائرہ مکمل کر چکے تھے – اب سب لوگ اس دائرے کے اندر تھے- حیرت کی بات یہ تھی کہ کالے ساۓ سرکل کے باہر جمع تھے اور انھیں گھور رہے تھے – ان کالے سایوں کی آکٹپوس نما شبیہیں فضا میں تیر رہی تھیں-دائرے کو نہ زمینی اور نہ فضائی حدود سے پار کر پا رہے تھے – ان کی بھیانک نگاہیں شینا پر جمی تھیں، جو اب قدرے بہتر تھی، تاکن نے اسے سنمبھالا ہوا تھا- یہ امر بھی اچنبھے سے کم نہیں تھا کہ اس اچانک حملے میں وہ ڈی کروز سیکرٹ سوسایٹی کے کسی بھی ممبر کو نقصان پہنچا سکتے تھے مگر ان کا ٹارگٹ صرف شینا تھی -ان کا ٹاسک بظاھر شینا پر حملہ تھا، اور اس دوران اس کالی بلی کو اپنے قبضے میں بھی لے لی لیا تھا- چند لمحے وہ سرکل سے باہر کھڑے پھنکارتے رہے پھر اچانک ہی تاریکی کا حصہ بن چکے تھے – ان کے جاتے ہی تاکن نے اطمینان کی سانس لی ، جبکہ ڈی کروز سیکرٹ سوسایٹی کے ممبران بشمول ڈی کروز ایسے ہانپ رہے تھے جیسے ہزار میٹر کی ریس دوڑ کر پہنچے ہوں – کتابی علم اور چیز ہوتا ہے ، حقیقت میں سامنا بلکل مختلف چیز ہے – تھیوری اور پریکٹیکل میں یہی بنیادی فرق ہے کہ پریکٹیکل ہمیشہ بہت دل گردے کا کام ہوتا ہے –

‘ اس طرح کھلے عام ہم پر پہلی بار حملہ ہوا ہے!’ ڈی کروز نے گھبراۓ لہجے میں کہا – وہ ایسی چیزیں کتابوں میں پڑھتا آیا تھا مگر اس طرح سامنا پہلی بار ہوا تھا – باقی ممبرز کی حالت بھی خراب تھی – صرف تاکن اور فر چر نارمل لگ رہے تھے –

‘ کالے سایوں کا حملہ تم پر نہیں تھا ڈی کروز …گھبراؤ مت! ‘ میڈم فر چر نے اسے تسلی دیتے ہوۓ کہا – جبکہ تاکن شینا کو ہولے ہولے کہ رہا تھا
‘ اٹھو …شا باش ہمت کرو ‘ فر چر کے لبوں پر اس اپنایت کو دیکھ کر ایسے حالات میں بھی مسکراہٹ آ چکی تھی – باقی ممبرز ڈرے ڈرے ، سمٹے سمٹے ، ایک دوسرے کے ساتھ لگے کھڑے تھے- وہ ہلکی سی آہٹ پر چونکتے تھے اور ادھر ادھر گھپ اندھیرے میں حرکت کے نشان دیکھتے تھے –
‘ آج رات اسی دائرے میں گزارنی ہو گی ؟’ ایک ممبر کے سوال پر فرچر اور تاکن بے اختیار مسکراۓ تھے –

‘ نہیں ، اب خطرہ نہیں ہے ‘ فر چر نے مخصوص کھڑ کھڑ آتی آواز میں انھیں دلاسا دیا –

تاکن نے ممبرز کی حالت دیکھتے ہوے فیصلہ کیا کہ میڈم فر چر ان کے ساتھ جاۓ گی، اور وہ خود شینا کو لے کر ہاسٹل چھوڑے گا- وہ شینا کے کیس میں مزید خطرہ نہیں اٹھا سکتا تھا ، وہ جانتا تھا کہ شینا پر حملہ کیوں ہوا تھا!!! وہ ایک بار پھر اپنے سول میٹ کی قربانی نہیں دے سکتا تھا- اس نے شینا کے ساتھ ساۓ کی طرح رہنے کا مصمّم ارادہ کر لیا -چند لمحوں بعد وہ وہاں سے روانہ ہو چکے تھے –

*************

شیخ کلامی نے ایک چٹ پر سائلہ کا سوال پڑھا ، لکھا تھا …

‘ سلام شیخ کلامی صاحب ! میرا نام …. ہے ، میں …سے آئی ہوں، فلاں شخص جس کا نام ….. ہے ، میری زندگی برباد کرنے پر تلا ہوا ہے ، میرا پکا دشمن ہے، میری شہرت، عزت، نام سب داؤ پر لگ چکا ہے اس کی وجہہ سے …میں ایک کمزورلڑکی ہوں اور خود کو بے بس سمجھتی ہوں کہ کھل کر اس ہرزہ سرائی کا جواب دے سکوں – خدارا میری مدد کریں اور ان ناموں کو صیغہ راز میں رکھیں ، الله آپ کو ا سکا اجر دے گا ، آپ کی بیٹی ….’

وہ کچھ دیر عالم استغراق میں ڈوبے رہے- پھر خادم سے کہا کہ وہ اس لڑکی کو بلا لاۓ – چند لمحوں بعد ایک شرعی حجاب پہنے لڑکی انھیں سلام کہ رہی تھی،انھوں نے لحظہ اسے دیکھا اور پھر خشوع و خضوع سے سلام کا جواب دیتے ہوۓ کہا –

‘ وسلام بیٹی، جیتی رہو – ‘ اب ان کی نگاہیں جھک چکی ہوئی تھے، زمین میں گڑ چکی تھیں – اس دوران چند عورتیں کمرے میں کرسیوں پر بیٹھ چکی تھیں –

‘ تم گھبراؤ نہیں- بعض اوقات چیزیں وہ نہیں ہوتیں جو نظر آتی ہیں – غلط فہمی بھی ایک فتنہ ہی ہے – ایسا فتنہ جو جلد بازی یا عجلت میں ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتا- ‘ شیخ کلامی نے اسے سمجھاتے ہوۓ کہا تو وہ لڑکی ذرا پر جوش لہجے میں کہنے لگی –

‘ بیحد ادب کے ساتھ ، میں آپ سے اختلاف کرتی ہوں – اس نے جو کچھ کیا ، اگر میں آپ کو بتاؤں تو …’ پورے کمرے میں اس کی بات سن کر سناٹا چھا گیا، لوگ چہ مگوئیاں کرنے لگے تبھی شیخ کلامی نے دایاں ہاتھ بلند کیا تو سب خاموش ہو چکے تھے –

‘ بیٹی…کم تو تم نے بھی نہیں کیا !’ وہ بیحد شگفتہ لہجے میں بولے ، لڑکی غصے میں دانت کاٹنے لگی، مگر خاموش رہی –

‘ تم نے اس کا نام اور اپنا نام صحیح لکھا ہے ؟’ انہوں نے اس لڑکی سے سوال کیا

‘ بلکل صحیح لکھا ہے شیخ صاحب ‘ لڑکی نے پٹ سے جواب دیا

‘ تو پھر …’ شیخ کلامی نے مسکراتے ہوۓ کہا ‘ وہ شخص تمہارا دشمن نہیں ہے ، نہ ہی تم اس کی دشمن ہو – تم دونو ں غلط فہمی کے شکار ہو ، مگر دشمن نہیں ہو! بلکے ایک دوسرے کے لیے فائدہ مند ہو !’ لڑکی نے احتجاج میں کچھ کہنا چاہا تو شیخ کلامی نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا
‘ بیٹی پوری بات سن لو … تمھارے نام کا پہلا حصہ ، اور اس کے نام کے پہلے حصے کے عدد ‘ 696 ‘ بنتے ہیں – جیسے فرض کرو اگر ایک نام ‘ سیما خان ہے اور دوسرا ‘ کامران علی ‘ ہے تو علم جفر میں ہم ‘ سیما کامران ‘ کے اعداد کو دیکھیں گے – اب یہ جو تم دونوں کے جڑے پہلے نام کے اعداد ‘ 696 ‘ بنتے ہیں، یہ کوئی معمولی عدد نہیں – بہت کم لوگوں کے نام کے اعداد ، الله سبحانہ کے نام کے اعداد کے برابر ہوتے ہیں – بہت کم ایسے ہوتا ہے ، شاذو نادر ایسا ہوتا ہے …ہمیشہ دو اسماۓ حسنا اور عام طور پر تین اسماۓ حسنہ کے اعداد جوڑ کر اس کو پورا کیا جاتا ہے –
‘ شیخ صاحب کی نظریں زمین کو ہی تک رہیں تھیں، جبکہ اس لڑکی کا منه حیرت سے کھل چکا تھا …

‘ یہ 696 کا عدد اس لیے غیر معمولی ہے کہ الله سبحانہ تعالیٰ کے ایک نام کے اعداد کے برابر ہے -اور وہ مبارک نام ہے ‘ النافع ‘ جس کے اعداد بھی 696 ہیں …’ النافع ‘ کا مطلب ہے ‘ نفح پہنچانے والا ‘ …اسی سے ‘ نافیہ ‘ نکلا ہے ، ایک دوسرے کے لیے بہتر، ایک دوسرے کے لیے فایدہ مند، ایک دوسرے کوخیر والے یا پرافٹ یا فایدہ یابھلائی پہنچانا سب اس کے زمرے میں آتا ہے – تم ‘ النافع ‘ کر ورد کیا کرو، انشاللہ سب بہتر ہو گا، یہ پرسرار تعلق یا لنک کسی خاص مقصد کی تکمیل کے لیے ان دو ناموں جن کے اعداد 696 ہیں ،کو خیر بنا دیتا ہے …’ لڑکی چپ چاپ انھیں دیکھے جا رہی تھی –
‘یہ ضرور دیکھو، جب سے وہ نام تمہاری زندگی میں جڑا ہے صرف نقصان پہنچا ہے یا فائدہ بھی ہوا ہے ؟دشمن سے بھلائی یا خیر کہاں ملتا ہے ؟ تم دونوں کو بے شمار اچھی چیزیں اور فایدے ملے ہیں ، تو غلط فہمیاں اور بشری کمزوریاں اپنی جگہ، مگر یہ نام دشمن نہیں ہیں! خدا حافظ ‘ شیخ صاحب نے اسے تفصیل سے سمجھا کر جانے کا عندیہ دے دیا ، اور اگلے سائل کی طرف متوجہ ہو گئے ..جبکہ وہ لڑکی ، بے حس و حرکت وہیں کھڑی تھی، جیسے اس کے پاؤں جام چکے ہوں اور چلنے سے انکاری ہوں !

*************

شینا اور تاکن اسی چٹان پر ، پہاڑی والی چٹان پر ، جنگل میں موجود تھے – امریکی ریاست ڈتریات کے گھنے جنگلوں میں کتنے ہی ہنٹرز کیبنز اور ہٹس بنے ہوے تھے – جہاں شکاری مخصوص موسم میں آ کر شکار کرتے تھے – ان کے جانے کے بعد اگلے سیزن تک وہ ہٹس ویران ہو جاتے تھے -ایسا کسی ایشایی ملک میں ممکن نہ تھا، مگر وہاں تو سینکڑوں کی تعداد میں ایسے ہٹس تھے – وائلڈ لائف سے محبت کرنے والے، قدرتی مناظر سے عقیدت رکھنے والے اور شہروں کی حبس بھری زندگی سے دور یہاں من کی دنیا میں سکون کی جھیل میں ڈبکیاں لگاتے تھے -اگرچہ تاکن کا ہٹ اس جنگل میں اکیلا نہ تھا، مگر دوسرے ہٹ اس سے کافی دور تھے – ویسے بھی اس کا مقصد تو تنہائی میں خدا سے قرب ، اور علوم میں مہارت تھی-

آج جب وہ شینا کو لیکر اس کے ہاسٹل پہنچا تو وہاں ہنگامہ مچا تھا، ایک رہایشی نے کیٹی کو اس حالت میں دیکھ کر ہاسپٹل پہنچا دیا تھا – شینا اپنی روم میٹ سے ملنے کو بے قرار تھی- وہ اسے لے کر ہاسپٹل پہنچا، جب تک شینا اندر رہی ، کیٹی کی خیریت دریافت کرتی رہی -تاکن پارکنگ لاٹ میں اندھیرے میں ساکت حالت میں بت بنا موجود تھا- لوگ اس کے قریب سے گزر جاتے تھے مگر وہ اس کی موجودگی نہ بھانپ سکے- اتنا عرصہ جنگل میں رہنے کے بعد یہ روشنی ، یہ مصنوئی چہل پہل ، تاکن کے مزاج پر بیحد گراں گزر رہی تھی -وہ صرف شینا کی خاطر خود پر ضبط کیے وہاں انتظار کرتا رہا -شینا کے واپس آتے ہو اس نے کہا ،
‘ ہاسٹل اب محفوظ نہیں رہ گیا – چاچ کی نظروں میں آ چکا ہے ، تم مرے ساتھ ہٹ چلو، جب حالات نارمل ہوں گے تو واپس آ سکتی ہو ‘ شینا نے چاچ کا سن کر اس سے پوچھنا چاہا کہ یہ چاچ کون ہے ، مگر تاکن نے کوئی جواب نہ دیا – شینا ہاسٹل سے ضروری سامان ایک بیگ میں پہلے ہی لے چکی تھی – اور ا وہ دونوں اسی پہاڑی پر موجود تھے – اس قدر خوفناک واقعات کے با وجود شینا صرف اس لیے خوش تھی کہ وہ تاکن کے قریب رہ سکتی تھی، اس سے انجان مخفی علوم سیکھ سکتی تھی …یہ ایک وائلڈ لائف کا خواب اس نے ہمیشہ ہی دیکھا تھا – یہ ایک فینٹسی تھی، ظاہر ہے اس کا موڈ بیحد خوشگوار تھا – تو اب ایک بار پھر شینا اور تاکن اسی چٹان پر ، پہاڑی والی چٹان پر ، جنگل میں موجود تھے-

‘ تاکن …’ یہ چاندنی کتنی خوبصورت ہے ‘ اس نے بیحد رومانوی لہجے میں کہا –

تاکن نے قدرے حیرت سے اسے دیکھا، اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی شینا کتنی زندہ دلی سے چاندنی پر تبصرے کر رہی تھی ‘

‘ ہوں ‘ تاکن نے بیحد سڑا سا مختصر جواب دیا – وہ پہاڑی کی چوٹی پر کسی چوکس شکاری کی طرح محتاط انداز میں بیٹھا تھا – اس نے وہاں آتے ہی محفوظ حصار کھینچ دیا تھا – اس وقت وہ چوکڑی مارے بیٹھا تھا، چاندنی کی ہلکی کرنیں اس کو مزید پرکشش بنا رہی تھیں – ہلکی ہوا سے اس کے بال بل کھاتے ، ہچکولے کھاتے ،زیر و بم ہو رہے تھے – شینا اسے مسلسل دیکھے جا رہی تھی- مون ٹرانزٹ کشیش عروج پر پہنچ چکی تھی – وہ تاکن کے نزدیک ہوئی ، اس کا لہجہ خمار آلود تھا

‘ تاکن … جنت بھی ایسی ہوتی ہو گی ؟ ہیں نا ؟’ شینا کی آنکھیں ترچھی ہو کر، مدہوشی اور مستی کا پیغام سنا رہی تھیں – تاکن کے چہرے پر بیزاری کے تاثرات در آۓ

‘ اٹھو …’ اس نے شینا کا بازو پکڑتے ہوۓ سخت لہجے میں کہا ‘ آج تمہارا دوسرا سبق ہے!’

‘ آج جتنے چاہیں سبق لے لیں …تاکن ڈا ..’ اس نے لاڈ بھرے لہجے میں ”ڈارلنگ ”کہتے کہتے الفاظ روک لیے مگر پیغام پہنچ چکا تھا – تاکن کی آنکھوں میں وحشیانہ چمک سی لہرائی ، جو شاید شینا دیکھ نہ سکی – وہ مکمل سرور میں تھی – اسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا –

‘ صرف…تاکن !’ اس نے درشت اناز میں شینا کو جھاڑا، مگر شینا انتہائی شرارتی نظروں سے اسے دیکھ کر سر ہلانے لگی ، تاکن نے یہ دیکھ کر سختی سے ہونٹ بھینچ لیے – وہ دونوں چلتے چٹان کے کنارے پر آ چکے تھے- چند فٹ تک چاندنی تھی، پھر گہری خوفناک کھائی نما تاریکی تھی ، جہاں نیچے بہت نیچے ، سینکڑوں فٹ نیچے خلا کے بعد ، ٹھوس زمین تھی- تاکن کنارے پر پہنچ کر شینا کو نظروں ہی نظروں میں تولنے لگا –
‘ اس کا نام ہے ‘ فیتھ ٹیسٹ ‘ …اعتبار کی آزمایش !’ تاکن کا لہجہ نا چاہتے بھی سخت ہو چکا تھا – شینا معصومیت سے پلک جھپکتے بیحد پیار سمو کر بولی-

‘ مجھے یقین نہیں آتا میں پھر اسی جگہ موجود ہوں جہاں پوری رات میں نے اکیلے گزاری ، میں کبھی سوچ بھی نہ سکتی تھی ، کہ دوبارہ یہاں آؤ ں گی..اوہ تاکن ! اب مجھے خوف ہی نہیں لگتا – آپ کتنے اچھے ہیں !’ شینا بہکے بہکے انداز میں کہتی تاکن کے قریب ہوئی، اور قریب …مزید قریب …اتنا کہ وہ ایک دوسرے کی سانسیں سن سکتے تھے ، محسوس کر سکتے تھے – تبھی تاکن نے آھستہ سے کہا

‘ مجھ پر اعتبار ہے ؟ میری تعلیم پر اعتبار ہے ؟’

‘ خود سے بھی زیادہ اعتبار ہے تاکن …’ شینا مدہوشی میں یہ که کر، ہاتھ پھیلا کر، تاکن کے گلے لگنے لگی-

مگر یہ لمحہ اس کے لیے پوری زندگی کا سب سے عجیب لمحہ ثابت ہوا تھا- تاکن نے کسی گڑیا کی طرح اسے ہوا میں اچھال دیا تھا ، یہ دھکا اتنا زبردست تھا کہ وہ ، پیچھے موجود ، سیدھی سینکڑوں فٹ گہرائی میں جا گری – اس کے حلق سے بے اختیار فلک شگاف چیخیں نکل رہی تھیں- نیچے بھیانک موت اس کا انتظار کر رہی تھی -اس کا ذہن، تاکن کے دھکے کے بعد ، شاک اور حیرت کی شدت میں سوچنے سمجھنے سے قاصر ہو چکا تھا، وہ مسلسل ہزیانی انداز میں چیخیں مار رہی تھی -چاروں طرف اندھیرا چھایا تھا، موت کا اندھیرا !!!

””تاکن””’
*************
(حصہ پنجم-5) مصنف (ناول) :کاشف علی عبّاس

شینا چند لمحوں بعد ہی ایک نیٹ یا جال سے ٹکرائی جس نے اسے کچھ فٹ اچھال دیا ،وہ محفوظ اور صحیح سلامت تھی، اسے خراش تک نا آی تھی ، تاریکی میں ہونے کی وجہہ سے یہ جال جو رسیوں سے بنا تھا اسے نظر نہ آیا تھا –
‘ تاکن مسکرایا ‘ اسے فیتھ ٹیسٹ اسی لیے کہتے ہیں ‘ جبکہ شینا اس کے بازو کا سہارا لیتے ہوے کھسیانی ہنسی کے علاوہ اور کچھ کر بھی نہ سکتی تھی –

‘ ویسے گھبراؤ مت …یہ جال ہاتھی کا وزن تک سه سکتا تھا ‘ تاکن نے شرارتی لہجے میں کہا
شینا نے اسے گھورا ‘ میں مر جاتی تو سب سے زیادہ نقصان آپ کا ہی تھا ‘ شینا یہ کہ کر سامنے بینچ پر برجمان ہو چکی تھی، جبکہ تاکنمنه کھولے اس کی بات میں موجود منطق اور وزن کو محسوس کر کے جیسے دل ہی دل میں اس کی ذہانت کا قائل ہو چکا تھا – وہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے تھے اور چاندنی نے ان لمحات کو بقع نور بنا کر پر فسوں کر دیا تھا – دو دل دھڑکتے تھے ، اور دل سے دل ملتے تھے ، چپ چاپ ملتے تھے – شینا اور تاکن کے دل !

*************

کائنات کی نوری مخلوق ، ملک ،یہاں وہاں اڑتے جاتے تھے – رب عرش کی سلطنت میں کائنات کی تیز ترین رفتاروں پر بجلی کی ماند کوندتے تھے ، بڑھتے جاتے تھے – ایک سفید پروں والے خوبصورت ، نوری ، حسین اور وہ بھی ایسا حسین کے حسن یوسف کا ثانی لگتا تھا – اس نے دلکش صد ا لگائی جو کائنات میں ایک جگہ سے دوسری تک ایک ساؤنڈ بلاسٹر کی طرح پھیلنے لگی ، یہاں وہاں ہر ایتھر اور ایٹم پر گونجنے لگی –

” انسان کہتا ہے …لوگ ملتے رہتے ہیں ، لوگ بچھڑتے رہتے ہیں …ہر لمحہ ، ہر سیکنڈ اس کرہ ارض پر نیے نیے چہرے ، پھول بن کر ظہور پاتے ہیں کھلتے ہیں اور کتنے ہی مرجھا جاتے ہیں رشتے بنتے ہیں اور پھر بگڑتے ہیں ایک ہنگام سا برپا رہتا ہے ہماری نجی زندگیوں میں ہر چلتی سانس کے ساتھ نیا ہوتا رہتا ہے ہماری پلاننگ ، ہمارے منصوبے ، ہماری مصروفیات اور ہماری نفرتیں ہماری محبتیں وقت کی ان پرتوں میں معاملے چلتے رہتے ہیں ہر دن ایک نیی بھاگ دور ہوتی ہے الجھنیں ہوتی ہیں اور حل نکلتے رہتے ہیں آزمایشیں آتی رہتیں ہیں اور کبھی ہم فاتح ہوتے ہیں اور کبھی ہم ناکام ہو جاتےہیں ہماری خواہشوں کا کوئی انت نہیں ہماری لغزشوں کا کوئی شمار نہیں ہماری چاہتوں کا کوئی ا ختتام نہیں مگر اس سب میں صرف ایک چیز مستقل ہے زمانہ گزرتا رہتا ہے اور زندگی چلتی رہتی ہے… انجان سے معلوم اور معلوم سے انجان کی طرف زندگی چلتی رہتی ہے -انسان کہتا ہے …’
وہ پروں کو فرفراتا ، پھڑ پھڑ آتا ، پھر سے ندا دینے لگا – کائنات روشن ہو چکی تھی …اس کی آواز کی کرنیں کائنات کے ذروں کی سماعتیں سن رہیں تھیں ، اس کو آفتاب و مہتاب بنا رہی تھیں – ملک ندا لگا رہا تھا –

‘آغاز میں کچھ نہ تھا ، ایک ادھوری سی تشنگی اور جان لینے کی بےسود آرزو کے سوا کچھ نہ تھا …اورتب شعور کی روشنی ہم پر نور بن کر برسی اور ہم اس دنیا کی طرف بھیجے گیے ، اور پھر کچھ وقت گزار کر ، انجام یعنی موت کو پا گیے ..تو آغاز و انجام کے درمیان میں ہی زندگی تھی -اور یہی درمیان کا ٹائم ہماری پہچان کا ٹائم تھا …خود کو پہچانو ، مقصد حیات کو پہچانو ، اس عظیم الشان دنیا کے عجائبات کو دیکھو …اپنی ضرورتوں کو پورا کرو جسمانی ضرورتیں جیسے بھوک ، آرام ، نیند اور بنیادی سکون کے معاملےدیکھو ا و ر ذہنی ضرورتیں جیسے کام ، سکون ، محنت اور عبادت کو پورا کرو …کہ درمیانہ ٹائم عارضی ہے جلد ختم ہو جانے والا ہے لذت دنیا سے الوداعی سلام ہونے والا ہے اور پھر انجانا انجام ہے تو کیسا عجب مقام ہے …آغازسے پہلے نا معلوم ، اور انجام کے بعد نا معلوم ،صرف درمیان میں ہم معلوم کی کیفیت میں زندہ ہیں اور یہ کیفیت اس دنیاوی زندگی کی کیفیت ہے …ازل سے پہلے راز تھا ، ابد کے بعد راز ہے …اور ازل اور ابد کے درمیان ہم ہیں جو اس راز کو جاننے کی کوشش میں خود راز ہو جاتے ہیں …کیسا پرسرار کشف ہے ؟

اس محدود مدّت کو برباد کرنے والے سے زیادہ بد نصیب کون ہو گا…اس محدود عارضی مدت ، معلوم وقت، درمیانی ٹائم کو بھی ضائع کرنے سے ہم دو نامعلوم میں ہی گھر کر رہ جاتے ہیں …رنگ الگ، نسل الگ، خاندان الگ ، زبان الگ، ثقافت الگ، مذہب الگ سوچ الگ سہی مگر خون ایک، آغاز ایک ، انجام ایک ، ضروریات ایک، پہچان ایک یعنی انسان …تو اگر اب بھی مقصد حیات سمجھ نہ آیے تو انسان اس بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتا ، وہ یہ دیکھنا ہی نہیں چاہتا کہ اس عظیم کائنات میں اس کیحیثیت ایک ذرے برابر ہے ، اور ہر لمحہ ذروں کا طوفان اس کائنات میں داخل ہو رہا ہے ، اور اتنا ہی بڑا ذروں کا ہجوم رخصت بھی ہو رہا ہے – یہ آمد و رخصت کا کھیل ایسا کھیل ہےکہ ہر انسانپر یکساں لاگو ہے اور کوئی اختلاف نہیں کر سکتا -تو کوئی نہ کوئی مقصد تو ہو گا ؟ اس قدر عظیم پیمانے پر جاری خارجی و اندرونی تبدیلیوں کا کوئی نہ کوئی جواز تو ہو گا؟ ‘انجان سے معلوم اور معلوم سے انجان ‘میں کوئی بھید تو چھپا ہو گا ؟ تو یہ سو فیصد سچ ہے کہ مقصد حیات تو ہے – مگر کیا ہے ، اس میں لوگ اختلاف کرتے ہیں – مذہبی ، لسانی، ثقافتی، سائنسی اور بنیادی وجوہات پر اختلاف کرتے ہیں – اگرچہ اس کائنات کی گتھیوں کو سلجھانا ، اس نظام کی چکریوں کو پرکھنا، اپنے وجود کو سمجھنا اور ان حقیقتوں اور نشانیوں کو مان کر غور و فکر کرنا ، کسی لحاظ سے مقصد حیات کی طرف اٹھے ایک اہم قدم سے کم نہیں ہے -”’انجان سے معلوم اور معلوم سے انجان” کا راز اسلام آشکار کر دیتا ہے – خدا کی عبادت، فرمابرداری اور انعام میں جنت یا لہو و لھب ،خدا کی نافرمانی اورسزا میں جہنم ! بڑے سادہ مگر پر اثر طریقے سے ہمیں مقصد حیات کی آگاہی ہوتی ہے – تو کائنات میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جو دعوت فکر دیتی ہیں اور کہتی ہیں ، آؤ اور ہمیں سمجھو ، اور ہمیں سمجھ کر خود کو سمجھو اور مقصد حیات کے راز سے پردہ اٹھا دو ! اور زندگی کیا ہے ؟’

جیسے ہی ملک کا بیان ختم ہوا الحمدوللہ کی صداؤں سے پورا جہاں گونج اٹھا ، ہر مخلوق ، کائنات کی ہر چیز ایک ہی ذات کی تعریف کر رہی تھی ، توصیف کر رہی تھی، تسبیح کر رہی تھی …الله سبحانہ کی تعریف میں ، حمد میں سب سبقت لے جانے کو مصروف کار تھے اور اسی حالت میں تا قیامت رہیں گے – اگرچہ ایک انسان ان آوازوں کو ذوق و شوق و کامل ایمان نہ ہونے کی وجہہ سے پرندوں اور اشجار کی آہیں سمجھتا رہے ، قدرت کی رنگینیاں سمجھتا رہے ، یا سرے سے سن ہی نہ سکے تو یہ اس کا قصور نہیں ، وقت متعین تک اس کو مہلت ہے ، پھر پردے اٹھا دیے جاییں گے اور انسان کہے گا، کاش میں خاک ہو جا تا !!!

*************

شیخ کلامی اپنے فکر انگیز لہجے میں ایک سوال ‘ زندگی کا مقصد کیا ہے ؟’ کا جواب دے رہے تھے …

‘مکمل ضابطہ حیات آخر کیا ہے ؟ لاجک اور مذہب کی مدد سے جیسے ہی ہم اس مقام فکر پر رکتے ہیں توپہلے مرحلہ میں ‘ ‘انجان سے معلوم ”کا بھید کھلتا ہے – ہم دنیا میں اس لیے بھیجے گیے کہ کائنات کے رب کی یہ منشا تھی – آگے چلیں تو دوسرا مرحلہ ، ”معلوم سے انجان ”کا پتا چلتا ہے ، کہ موت اس لیے ہے تاکہ ایک اور دنیا میں مستقل زندگی ملے – تو انجان سے انجان کا مقصد ہے کہ ہم عبادت کریں، یعنی مقصد حیات یہی ہے ، کائنات کے رب کی مانیں اور اچھی منزل پائیں- یا نا مانیں اور بری منزل کو پہنچیں – یہ مذہبی حل ہے ….رہے باقی حل، تو لاجک فیل ہو جاتی ہے ، سائنس خاموش ہو جاتی ہے ، ایک بیگ بینگ تھیوری کے علاوہ اس کے دامن میں شرمندگی کے سوا کچھ نہیں – حالانکہ لا دین بھی مانتا ہے کے کائنات کو کسی عظیم قوت نے ایک خاص میکانکی نظام میں چلا دیا ، کیسے ، کیوں ؟ اس کا جواب اس کے پاس بھی نہیں ! تو سماجی حل میں افریقہ کے نام نہاد علاقوں کے ابتدائی تہذیب کے ننگ دھڑنگ لوگوں سے لے کر ماڈرن اور جدید تہذیبوں تک مقصد حیات میں موت اور زندگی کا نظریہ بلکل صاف ہے، سب کسی نہ کسی عظیم قوت کی پیروی کرتے ہیں ، سب خود بہ خود نہیں ہو سکتا ، یہ سماجی لوگ بھی جانتے ہیں اور اس کے قائل ہیں، اور یہ سب جواز ناکام ہو جاتے ہیں سواۓ مذہبی جواز کے سب چپ ہیں اور مذہبی مقصد حیات کے علاوہ سب خاموش ہیں –

یاد رکھو ، اسلام ہی واحد مکمل و مربوط ضابطہ حیات ہے …انھوں نیک ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوے کہا –

‘لہٰذا مرے نزدیک گھوم پھر کر مذہبی جواز کو ہی سب سے مستند مانا جا سکتا ہے اور دنیا میں ہر مذہب کا اپنا طریقہ یا وے ہے – عیسایت میں جنت ، جہنم ، خدا اور انسان کی زندگی کا عارضی ہونا سب ہے ، مگر جب وہ یسوع کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو خدا کی کامل ذات کو کامل نہیں رہنے دیتے،(کہ خدا کی یہ شان نہیں کہ اس کا بیٹا ہو اور وہ بھی مخلوق میں سے، کہ وہ خالق ہے ) جب وہ کہتے ہیں کے یسوع نے انسانیت کے گناہ اپنے سر لے لیے تو لاجک سے ہٹ جاتے ہیں، یعنی ہر چور ، ہر ڈاکو ، ہر ظالم غلط کام کرنے کو آزاد ہے ، جو کے سراسر نا انصافی اور مہذب سوسایٹی میں ناممکن ہے – یہودیت میں عزیر یا حضرت موسیٰ کو یسوع کا درجہ دے دیتے ہیں، اور اپنے علاوہ سب کو کمتر اور جہنم میں بھیجے ہوے انسان سمجھتے ہیں – تو یہ بھی خدا کی کامل ذات کو کامل نہیں رہنے دیتے – ہندو مت میں پرماتما یا ایک واحد مرکزی قوت ، یا خدا کا وجود ثابت تو ہے ، نرگ بھی ہے، بہشت بھی ہے اور دنیا ایک آزمایش گاہ بھی ہے مگر ساتھ ساتھ خدا کی کاملیت کو مورتیوں میں ڈھال کر داغدار کر دیتے ہیں ، بھگوان کی مورتیاں بنا کر پوجا پاٹ خود ان کے اپنے مذہب سے ثابت نہیں ، ان کی مذہبی کتابوں اور شاستروں میں اس سے انکار ہے – پھر وہ سات جنموں یا زندگیوں کے قائل ہیں جو کہ نا معلوم سے ایک اور مذاق ہے ، بدھ مت اور جین مت اور لا دین بھی اسی بنیادی غلطی میں لاجکلی خدا کو مخلوق کے برابر کھڑے کر دیتے ہیں جو ممکن نہیں – تو ہم دیکتے ہیں کہ ان مذاہب میں مقصد حیات تو ہے، خدا بھی ہے اور عقاید بھی ہیں مگر مسخ اور تحریف شدہ حالت میں ہیں تو یہ قابل عمل نہیں ہیں –

صرف ایک مذہب، الحمدوللہ ، اسلام میں خدا کی کامل حیثیت کو اس کی کامل شکل میں برقرار رکھا گیا ہے ، لاجک بھی یہی کہتی ہے اور دین اسلام بھی یہی کہتا ہے -لہٰذا مقصد حیات کی سب سے بہترین ترجمانی اسلام میں ہے ، یہ مکمل اور ہر لحاظ سے مربوط ضابطہ حیات دیتا ہے – افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس کے چند جاہل پیروکار اگر اپنے مذہب کو ہی نہ سمجھیں ، اپنے مذہب کے پیغام امن و محبت کو نا سمجھیں ، تو اس سے اسلام کے بارے میں غلط کہنا نا انصافی ہو گی -‘
شیخ کلامی نے اختتتام پر سب کو نیاز و ختم کی دعوت میں شرکت کی گزارش کی، اک اور دن گزرا، اک مصروف دن رات میں بدل رہا تھا –

*************

تم ، میں …میں ، تم ….وجود — صبح سات بجے ، تین اگست

‘اک خلا ہی خلا تھا جس میں وجود ڈوبتا گیا ، کشمکش سی کشمکش تھی جس سے وجود نبرد آزما تھا ، بظاھر تو ایک خواب تھا، مگر حقیت کی فسوں انگیز تحریر پر لکھا گیا یہ خواب لاشعور میں جیسے مستقل بسیرا کر چکا تھا ،عقل دنگ رہ جاتی تھی، نفسیاتی طور پر حواس منجمد تھے، ہر چیز پر زنگ لگ چکا تھا ، ہر چیز گویا تھم چکی تھی – راستہ ملتا نہ تھا، جس طرف جاؤ ، سب راستے ، بڑی بڑی رکاوٹوں سے بند تھے – کبھی تشنگی امید کی رکاوٹ، کبھی ہارے ہوے حوصلوں کی رکاوٹ، کبھی بیزار ہو چکی زندگی کی رکاوٹ اور کبھی آگے چل نہ سکنے کی مزاحمت کی صورت میں رکاوٹ تھی – ایسے میں جب حواس مختل ہو چکے تھے، ذہن کہیں انجانی وادیوں میں معلق تھا، جسم لڑکھڑا رہا تھا اور تقدیر مسلسل وجود سے کھیلے جا رہی تھی – برے حالات تھے، اپنے ہونے کا یقین نہ آتا تھا، مقصد سمجھ نہ آتا تھا، اس کائنات پر عجیب جمود سا طاری تھا، اس انوکھے تماشے کی گتھیاں سلجھانا نا ممکن تھا – صحیح استدلال کیسے دیا گیا ؟ یہ کوئی نہ جانتا تھا ، پر آہستہ آہستہ اپنے ہونے پر یقین آنے لگا – استدلال اور فہم کے اصول مرتب کیے گیے – کسی نے کہا بگ بینگ تھا ، کوئی واحد مرکزی قوت کا معترف تھا، راز آشکار ہونے لگے – کائنات تسخیر ہو چکی تھی ، مگر کیا یہی سچ تھا ؟ ایک حقیر سے ریت کے ذرے کی کیا مجال کے پورے ساحل کا احاطہ کر سکے ؟ وہ زرہ تو بس اپنی موجودگی اور لوکیشن کو ثابت کرنے میں پوری زندگی گزار دیتا ہے، جب ایک وقت کی لہر اسے بہا کر موت کی اتھاہ گہرائی میں لے جاتی تھی ، اور وہ اس پر نازاں تھا ، کہ پانی کے اس لمس سے ، و لہر کے ٹکرانے سے ، اس نے اپنے آپ کو اس ریت کے ساحل پر پہچان لیا تھا، یہ پہچان اس کے ہونے کا ثبوت تھی ، یہی پہچان تھی، جس نے زندگی کو اور موت کو ممکن بنایا تھا- خود شناسی کرنا اس قدر مشکل تھا، کجا جہاں شناسی کہاں آسان تھی ، ایک راہ پر خار ، دھندلی دھندلی ، شکوک و شبہات سے سجی ، پرسرار اور مافوق الفطرت سی راہ تھی – اس راہ پر وہی چل سکتے تھے جو جنوں و منطق کے نفیس توازن سے آگاہ تھے – باقی دنیا والے تو راستہ تلاش ہی نہ کر پاتے تھے ، وہ تو اپنی میکانکی زندگیوں میں مصروف تھے ، مگر انجان منزلوں پر اپنی موجودگی کے نشان تلاش کرنے والے کچھ اور ہی لوگ تھے ،

” میں نے سوچا ، تو میں ہوں ” ڈیکارٹ مسرت سے صدیوں پہلے بول اٹھا تھا – ہاں ، ”میں ہوں” کی لذت دنیا کی ہر لذت سے دوبالا ہے ، مگر وجود کا ادارک کرنے اور اس کی پہچان کو نمایاں کرنے اور اس کی موجودگی کو ثابت کرنے والے اہل دانش لوگوں کے لئے، جو دنیا کے ساحل پر ریت کے ایک ذرے جتنی تعداد میں کم ہیں ، مگر وہ ہیں اور تھے !

***ہر طرح کے مسائل سے نجات اور سکون حاصل کرنے کا مجرب نسخہ پیش خدمت ہے*** پانچ نومبر ، شام کو …

ایسے وقت میں جب امید کے گھنے پتے شجر ذہن سے گر کر جھڑ چکے ہوں ، جب دل شکستگی کی گھنگھور گھٹا، زمین دل پر چھا چکی ہو – جب نفسانی مسرت و خوشی کی تلاش میں نظریں پتھرا کر ، مایوس لوٹ چکی ہوں – ہر لمحہ, غم و الم کی یاس انگیز عبرتوں اور نا آسودہ خواہشات کی بے ترتیت ذہنی الجھنوں کی بے رنگ تصویروں سے سج چکا ہو -اس نفس کی کشت ویران ، سکون کی کیف آور سینچائی آب کی شدت سے متلاشی ہو -تو ایسےوقت میں الله جل جلال ھو کا کلام شان با برکت ہی شفا ہے ، بیشک قرآن اور ذکر مالک القدوس سے دل کو ڈھارس اور مکمل فرحت حاصل ہوتی ہے ، ایسی ڈھارس جو جز وقتی نہیں بلکہ کامل دائمی ہے -‘

قلم کار خاموش ہے !!! رات دو بجے ، دسمبر

تاش کے پتے …جوا …دو ڈکیت ، قاتل …شراب پیتے …اپنی جیبیں تھپتھپاتے ، اسلحہ گھماتے ، اس سے کھیلتے …بے رحم سفاک یہ لوگ …ایک غیرب محنت کش کو قتل کر کے، لوٹی ہوئی رقم سے شراب کی بوتل ..اور کباب کھاتے ہوے …کیسے مسکراتے ہیں ، خوش ہوتے ہیں …ایک یہ طبقہ ہے !

اک تیرا طبقہ ہووے ، اک میرا طبقہ شالا جیوے …اک تیرا طبقہ …امیدوں کا منبع ، بھوک میں پستا ، مہنگائی میں جیتے جی سلگتا ، مرتا طبقہ …کبھی اناج کے لالے …کبھی مزدوری کے چھالے …سفید پوشی میں زندگی عذاب بن گیئی …روح فرسا عذاب ، بچوں کی کتابیں خریدنا بوجھ ، ننھے لبوں سے نکلتی ان کی معصوم خواشییں ، ہوں کیسے پوری ؟ بوجھ بڑھتا گیا …لڑکی کا بیاہ ، لڑکے والوں کی لسٹ ، بوجھ بہت بڑھ گیا، کمر جھکنے لگی …خمیدہ کمر ، ڈبڈباتی نظر ، حالات کو کوستی تلخ زبان ، زندگی کی چمک سے خالی خالی آنکھیں ، نقاہت سے پیلی آنکھیں ….شکوہ ہستی میں بے بس لوگ …ہاں یہی طبقہ- یہی پستا طبقہ …پاکستان -اے ارض پاکستان -سن عرض پاکستان! یہ غریب کہاں جایے ؟ اس لہو کو دھرتی میں جذب جذب کرتے کیسے دیکھا جایے ؟ ظلم کا سایہ ، طویل سے طویل تر ہوتا جایے – کہاں ہے مسیحا ؟ کہاں ہے دکھوں سے نجات دینے والا ؟ یہ طبقہ …خون چوسنے والی درندہ صفت مخلوق سے عاجزی میں موت مانگتا ہے ، مگر موت نہیں ملتی…خودسوزی کرتا ہے اور پولیس جلنے سے بچا کر حوالات میں پھینک دیتی ہے …دعائیں مانگ مانگ، زیر لب کبھی بلند آواز ، مسلسل مانگے چلا جاتا ہے، سہمی سہمی ، ڈری ڈری …اس زندگی سے لرزتی لرزتی ….نیلے آسمان کو تکتی ہیں …عزتوں کا رکھوالا ، سچا بادشاہ -پکارتی پکارتی ، روتی روتی …قفس ظالم میں دم توڑتی توڑتی …حوا کی بیٹیاں …اس طبقے کی پسی ہوئی حوریں ، جن کی جنت روٹی اور عزت کے گرد گھومتی ہے —روٹی روٹی آہ روٹی – ظلم ظلم آہ ظلم !!!

حق کا منصف قلم کار خاموش ہے …قلم کار خاموش ہے !

عشق …کیا ہے ؟ 8 جولائی ،دوپہر کے کھانے کے بعد

تھرتھراتے ، کانپتے لپوں کا تل جو سانس کے زیر و بم میں کسی ہچکولے لیتی کشتی کی مانند یہاں وہاں دھڑکنوں میں نیا تلاطم پیدا کر رہا تھا – جذبات کی منہ زور ندی ، اپنی جولانی ، سیلانی اور طغیانی جوانی میں سب کچھ بہا لے جا رہی تھی – ان گور گندھے جذبات میں ، دو پیار کرتے دل، بری طرح گوندے جا چکے تھے – مٹ چکے تھے ، مل چکے تھے ، مدغم ہو چکے تھے ….بے ترتیب ، اکھڑی سانسوں کے سوا کچھ باقی نہ بچا تھا – چاند اپنے جوبن پر آ کر ، مست لہروں کا مدو جزر بنا رہا تھا – اک فسوں خیز قسم کی حالت تھی …خمار سے، نشہ سا ، خود پر قابو نہ تھا….جیسے اک سیل رواں ہو جس میں بہتے بہتے منزل بھی گزر جایے اور اب کسی نئی منزل ،نئی جدت اور نیئی لذت کا سفر جاری ہو ….نہ معلوم کی طرف، ….انجانے کی طرف مدہوشوں کی جنت کی ینب …جہاں کوئی نہ پہنچا ہو، اس ان چھوے مقام کی طرف گامزن دو پیار کرتے دل ….کسی کو خاطر میں نہ لاتے دل ! فردوس بریں کا عالم یقیں …سکون سکون بس سکون کی کہانی سنائی دے …عشق کا سفر مدتوں میں نہیں بلکے اک جست خاص میں طے ہو—-اور کہیں اطراف سے ایک مدھر سی آواز ہو ….’

‘ شینا جوں جوں پڑھتی جا رہی تھی، ویسے ہی وہ حیرت کے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتی جا رہی تھی، تاکن کی ڈائری کے یہ الفاظ تاکن کی طرح ہی پرسرار تھے -کبھی وہ مسکراتی ، کبھی رو پڑتی ، کبھی پر فکر انداز میں پڑھتی جا رہی تھی، اور ہر لحظہ وہ جیسے ان الفاظ کے سحر میں، تاکن کے سحر میں ڈوبتی جا رہی تھی -اسے لگا ، اسے تاکن سے شدید محبت ہو چکی تھی –
*************

رفیق خاص ایک باریش مگر بیحد نٹ کھٹ سے بزرگ لگتے تھے – ان کی مسکراہٹ قابو میں نا آتی رہی، تو وہ ایک کیوٹ سے ، چارمںگ ، سمائلنگ بزرگ تھے اور آتے ہی شیخ کلامی نے گلے ملے اور سوال داغ دیا کہ عشق کیا ہے ؟ اس کے دانت موتیوں کی لڑیوں کی طرح چمک رہے تھے –

بتایئے نا شیخ صاحب! عشق کیا ہے ؟ رفیق خاص نے پھر سوال کیا ، تو شیخ صاحب اپنے عرصہ دراز سے دوست کو نہ ٹال سکے اگرچہ وہ اس کا جواب کسی اور کو شاید نہ دیتے، مگر رفیق خاص کو انکار نہ کرتے ہوے بیحد رسان اور سہولت سے کہنے لگے –
‘کچھ چیزیں ناقابل فہم حد تک حیران کن ہوتی ہیں – سمجھ سے باہر، ادراک کی حدوں سے آگے ، عجیب اسرار میں لپٹی ہوئی کچھ چیزیں بہت پریشان کرتی ہیں – اس عشق کو ہی دیکھ لیں- عشق کیا ہے؟ عشق عشق ہے …اس کی شدت کا اندازہ ایک عاشق ، سچا عاشق ، نیک نیت عاشق ہی لگا سکتا ہے ، یہ جو ہر جگہ عامیانہ اور گھسے پٹے شعر نظر آتے ہیں، کسی ویب سائٹ پر، کسی بلاگ پر، کسی رکشے پر ، تو یہ جو محبت پر لکھے شعر ہوتے ہیں، یہ اس جذبے کی توہین بلکے کھلی ہتک کے مترادف ہوتے ہیں – یہ شغل کے طور پر تو سمجھ آتے ہیں مگر ان سے محبت لفظ سمجھنے کی کوشش کرنا ایسے ہی ہے جیسے لق و دق صحرا میں برسات کی توقع کرنا – ایسی برسات کے ہر طرف جل تھل ہو جایے – عشق اور چیز ہے، ایک اور ہی جہاں ہے ، ایک اور ہی منزل ہے ، ایک عجیب کیفیت کا نام ہے جو الفاظ میں بیان کرنا بیحد مشکل ہے، کجا کے ایک رکشے پر لکھے کسی رنگ باز کے ایک آدھہ مصرعے سے اس عشق کی تشریح ہو سکے- ناممکن ، قطعی ناممکن !

جیسے تصور میں دو ایسے بندے لاییں جو ایک ندی کے کنارے براجمان ، ندی میں چھلانگ مارنے اور غوطہ لگانے کے خواہشمند مگر ڈر غالب ہے اور کنارے پر بیٹھے باتوں سے ہی ٹھرک پوری کر رہے ہوں "جی، یہ غوطہ لگانے کا اپنا مزہ ہے ، کیا توانائی سی آ جاتی ہے، عجب فرحت محسوس ہوتی ہے "اور ان میں سے ایک اچانک ، تمام حوصلہ مجتمع کر کے پانی میں کود پڑتا ہے ، تو اس کو ایک ہی جست میں تمام زبانی باتوں کا عملی تجربہ حاصل ہو جاتا ہے – اور کنارے پر بیٹھا ، ساری زندگی بھی باتیں اور تشبیہات بنا لے تو اس کودنے والے کے عملی تجربے کی گرد نہیں چھو سکتا – یہ عشق پر باتیں کرنے والے بھی کچھ ایسے ہی ہیں ، عشق کیے بنا ہی تجربوں کے خالی مٹکے انڈیلے جاتے ہیں، جس کی حقیقت میں اہمیت صفر ہی ہے –

انسان کی برداشت کی آخری حد سے عشق کی ابتدا ہوتی ہے – یہ معاملہ کیا ہے ؟ کیوں کسی کی یاد، آپ کو بے چین و مضطرب کیے رکھتی ہے – ایسی یاد جس میں آمد ہو ، آورد نہیں – جس میں سچائی ہو، ڈھونگ نہیں – جس میں عشق ہو ، ہوس نہیں – کسی نے کیا خوب کہا ہے ” عشق نہ پوچھے ذات ” عشق کچھ نہیں دیکھتا ، مذہب ہو، عمر ہو، وقت ہو.زمان ہو یا مکان ہو، ممکن ہو یا نہ ممکن ہو ، بس ہو جاتا ہے ، جی ہاں، ہو جاتا ہے – اور کچھ بدنصیبی کہیے اور کچھ خوش نصیبی – ملن ہو جایے تو کیا کہنے، نہ ہو تو بندا اچھا خاص نکما اور "کچھ کام نہ جوگا” بن جاتا ہے –
ایک لاشعوری شکست سی ہو جاتی ہے، انسان اس گمان سے ہی باہر نہیں نکل پاتا کے اس کی عشق میں ہار ہو گیی ہے – آخر کیوں کسی کی یاد اس کو بے وقت آتی رہتی ہے ؟ یہ سوال اسے جینے نہیں دیتا، وہ مکڑی کے جال میں کشمکش کی حالت میں پھڑپھڑاتا سا رہ جاتا ہے – اور سونے پر سہاگہ ، اگر یکطرفہ ہو جایے تو انا للہ پڑھ لیجیے – عجیب گلے پڑھنے والی چیز ہے یہ، آپ خود کو لاکھ باز رکھیں، بزرگوں کی نصیحتیں سنیں، مذہب میں دل لگایئں ، یا کسی اور سے ٹانکا لگا لیں، بار بار خود کو جتنا مرضی روکیں ، مگر دل عشق میں عشق زدہ ہو کر، جان اپنی جان آفریں کے سپرد کر دیتا ہے- کام ختم !

اکثر رات کی تاریکی میں، یا دن کے اجالے میں یہی پلاننگ ہو رہی ہے کے یہ جو عشق کا منه زور گھوڑا ہے ، اس بے لگام کو کیسے لگام ڈالی جایے ، کبھی دولت ایک ایشو بن جاتی ہے، کبھی فیملی ، اور کبھی موصوفہ خود ایک کوہ گراں کی طرح مسلہ عظیم بن جاتیں ہیں – ان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے، اس بیماری عشق سے نجات ، تاکہ زندگی نارمل ڈگر پر آ سکے – عام طور پر شاعر حضرات دل پر لگی چوٹ کے سانحہ کے بعد ہی شاعری کر پاتے ہیں ،اک کتھارسس بن جاتی ہے- داستان عشق الفاظ میں بیان ہونے لگتی ہے ، داد الگ ملتی ہے داغ الگ ملتے ہیں -بہرحال عشق نے کام تمام کیا جیسی صورتحال میں پھنسنا ایک بدنصیبی ہے ، اور ایسا عشق جو ملن میں بدل جایے ، ایک خوشنصیبی ہے -عجب مقام فکر ہے ، عجب حال دل ہے، عجب موسم ویران ہے ، عجب ترنگ ہے، اور عاشق بیحد پریشان ہے ….

دانشور حضرت اس خرابہ کو جذباتیت ، حساسیت اور رجائیت کا نام دیتے ہیں، طرح طرح کی دلیلیں تراشتے ہیں اور عشق کو فضول کہ کر عاشق پر پھبتیاں چسپاں کر دیتے ہیں، فی زمانہ ، عشق کو فضول اور بازاری کام سے ملا دیتے ہیں ، پڑھائی کرو، ذمہ دار بنو، جاب کرو، ملک و قوم کی خدمات کرو ، یہ سب ان کا ماٹو ہے — ہوش والوں کو خبر کیا ، بے خودی کیا چیز ہے –عشق کیجیے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے ، یہ غزل عاشق گنگنا کر، ان کے اعتراضات کو تمسخر آمیز انداز میں نظر انداز کر دیتا ہے – عشق حقیقی بھی تو ایک اعلی و ارفع قسم ہے، خالق سے عشق کریں، اس کی تخلیقات سے عشق کریں، اس کے محبوب بندوں سے عشق کریں، اس کی کتاب سے عشق کریں — اور باز منچلے اگر اس کی مخلوق سے عشق کر لیتے ہیں تو کیا برا کرتے ہیں ؟کونسی قیامت برپا ہو جاتی ہے ؟ عشق تو عشق ہے ، جس سے بھی ہو ، جب بھی ہو ، اپنی شدت اثرات تو چھوڑ ہی جاتا ہے ، عقل کہیں دور سے بس تکتی ہی رہی، اور عشق آتش نمرود میں کود گیا – یہ فضیلت عشق ہے، یہ کمال جذبہ ہے، یہ عروج جنوں ہے، یہی زندگی ہے، یہی قضا ہے، یہ تمنا اور یہی انتہا ہے ، یہی ابتدا اور یہی اشتہا ہے –یہی سب کچھ ہے !

زیست میں عشق نہ کیا، تو کیا کیا؟ کتنی بے رنگ و بے توفیق اور بے مزہ ہے زندگی ، اگر اس عالم حیران میں انسان پرواز نہ کر سکے – کبھی اس آسمان پر، کبھی اس زمین پر، ان کہی باتوں کے سائے ہیں، ان دیکھی منزلوں کے نشان ہیں، ان چاہی چیزوں کی آرزو ہے، ایک طرف دل ہے، اور ایک طرف اس کا مکین ہے، یہ اسی نام پر بے قابو ہوا ہے،ہوتا ہے، ہوتا رہے گا، یہ دل اپنے محبوب کے نام کی مالا ، دھڑکن کی صورت میں جپتا رہتا ہے ، دھڑکتا رہتا ہے ، سانسیں چلتی رہتیں ہیں، محبوب کو یاد کرتی رہتی ہیں – یہاں تک کے اجل آ پہنچے ، زندگی ہار جایے مگر عشق ناتمام چلتا رہتا ہے، یہ فانی نہیں ہے، لا فانی ہے – انسان مر جاتا ہے ، روح زندہ رہتی ہے، جسم بوسیدہ ہو کر، مٹی تلے دفن ہو جاتے ہی، روحیں زندہ و تابندہ رہتی ہیں، جسم سمجھوتے کرتے ہیں ، روحیں عشق کرتی ہیں، جسم فانی ہوتے ہیں، مر جاتے ہیں – روحیں لا فانی ہوتی ہیں ، عشق کرتی رہتی ہیں – فہم سے کچھ دور، ادراک سے آگے ، ایک اور دنیا ہے ، جس کی خبر تو ہے، مگر نظام انجانا ہے ، مگر مجھے کامل یقین ہے کے اس کی بنیاد لہو عشق سے کی ہے، اور اس کی رونق و رنگ میں عشق کی آبیاری ہے، شراکت داری ہے ، اس نرالی دنیا میں جب پہنچیں گے تو جانیں گے کے جس کو حقیر جانا وہی صاحب توقیر نکلا ، ایک اور عاشق نکلا – ایک اور باب لکھا ، ایک اور سماں بندھا ایک اور منظر دکھا، یہ سب کیا ہے ؟ یہی عشق ہے ، یہی عشق ہے ‘ شیخ کلامی نے جذباتی لہجے میں کہا ، پھر کچھ دیر توقف کے بعد کہا –

‘کچھ چیزیں ناقابل فہم حد تک حیران کن ہوتی ہیں – سمجھ سے باہر، ادراک کی حدوں سے آگے ، عجیب اسرار میں لپٹی ہوئی کچھ چیزیں بہت پریشان کرتی ہیں – اس عشق کو ہی دیکھ لیں- عشق کیا ہے؟ عشق عشق ہے! ‘

شیخ کلامی نے آخری الفاظ ترنگ میں ، عشق خاص کی کیفیت بیان کرتے ہوۓ کہے تھے – رفیق خاص نے بمشکل ہنسنے کی کوشش کی مگر، مسکرا تک نہ سکے ، بس بت بنے وہیں بیٹھے رہے جیسے کلامی نے قوت کلام چھین لی ہو – عشق کی واردات ہمیشہ خاص ہوتی ہے !

*************

(جاری ہے )

to be continued

Written By Kashif Ali Abbas

 

Fiction

19 دسمبر

محبت

27 اکتوبر

https://www.facebook.com/share/p/75Ab6fJ57UMpKmSq/?sfnsn=scwspmo&mibextid=RUbZ1f

عشق

20 اگست

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid02YfuCNsnSvnbuismcVroHdXXAZsZCjxeRchiapKNWTJH5JSipkf67dX2XRTrSmRrGl&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=6aamW6

زندگی

13 اگست

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid02bfYJgmR6eC3QWeBBmhEkDaHtKRKq5VQG45Ni8UJ7cXdHtzzdZQqwTvLW2qT4SNiVl&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=RUbZ1f

عبّاس

26 جولائی

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid02yJ2XxQLvWezx4jhFAbn5ofAkNkyp8QNeC6hXdZoNUonTv6jeAPeovCj4E53S7qVHl&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=RUbZ1f

غائب محبوب

5 جولائی

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid02r5dbgdgcG4ev6NubCR5bWCEEhkkiS2XmTaD6Y2USNVcdEiDNpzhngLD4ri1EtbEEl&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=RUbZ1f

جان

5 جولائی

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid0bp3ApoZYfdNrBmCtHjUBUHNtgka6vRaWLL5rhxQXcxYiHguQ4CuEddGoZAcuDqFrl&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=RUbZ1f

عشق کا معجزہ

30 جون

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid05jd4gBLpnK2vSBtUfGZ2gM3kjUTdTx8X9XsA4pVCFWqTZQRhAWerhTUohWv9hj5jl&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=RUbZ1f

عشق خرابہ

8 جون

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid02Nys6hNWYwb4TBecmZweUHZ2nysVf8vkJRNLKfnmGTWF4cuLDFChXyi6SgTRNi5s2l&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=RUbZ1f

سوچ

4 جون

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid02R8abFQaa6nmyhYsEc6ZNqcLcCdTr5HB4Kf8samHErcCksX67Fybjd4K65793do7Al&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=RUbZ1f