Tag Archives: kashif ali abbas articles

Fiction

19 دسمبر

ہو جانے دے

11 مارچ

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid05AFXQ2ks4D2JmrfcuUao2KxL9LTmkZs7paBrCW1CGdKY3zK435oWzSHs9SJD7iELl&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=6aamW6

A scriptd

2 جنوری

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid0MtmDDef9i8BeuuAG7fyaFTgtmoGaatpZiwUEcyZqye2hsLgzpCZdchpv5XtMqKril&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=RUbZ1f

Green Willow

20 فروری

Watch "قران ترجمہ” on YouTube

1 جنوری

https://youtube.com/shorts/OYy8OboJHig?feature=share

Into English

17 اپریل

I’ve realized this fact statistically that, in general, all English Language sayings are mildly having a world of meanings in them.  Most of them are as stingy as the notorious sting of African spider Tarantula. An analysis will reveal all that I’m focusing here, into English.

  • Child is the father of man. (Wordsworth)

My take on this:  Firstly, this statement looks absurd. Secondly, it appears to be written in wrong order, as we all know, a man is the father of child, and not vice versa. But, if we closely examine, we see heaps of meanings in between words, as if giant blocks of understanding, interpretation and meanings.

 

Actually, to understand this statement, we must understand a term, “Paradox.”  A Paradox is such statement which looks childish, idiotic and ridiculous; now, as we ponder about it with a little meditation, we get meanings upon meanings and a total stupid statement starts to make sense.

 

It is a paradox, then. Therefore, it looks childish, but it must have some deep and logical meanings. What they can be? So, the statement says that child is the father of man. The word father can be a “symbolic” word, a “metaphor” or a foregrounded word. The apparent meanings are of “father,” but the inward meanings can be of, “Guide” etc. So, a child can be a guide of man. Now, how can this thing happen? Well, a child can be a guide to a well- grown man in many ways. A child does not lie. He is neither jealous, nor violent. He is neither hypocrite, nor abuses, nor uses harsh words or behavior, and never breaks hearts. A child is harmless. These are all those qualities, which any child loses as he gets old and become a grown man, most probably. Thus, these are the things that a man should learn from a child. This way, a child can be a guide to man. This is just one level of understanding that I found from this statement.

 

Written by Kashif Ali Abbas

(Continued)

 

The Cold Disaster of Siachin Soldiers- A brief comment on 150 Soldiers In Siachin

12 اپریل

It is a news of demise that haunts me whilst I write this, trembling to hold my pen. The brave birds have flown from the snows of Siachin Glaciers… Since 1984, the nation has been witnessing coffins after coffins from the worlds highest war front, Siachin. What For? I dareask. Who for? I dareclaim. The lives of our soldiers worth much more than that. This war was started by a folly of indian troops, and we had to defend our land. We became a part of the folly. Whatmore blood should be enough to suffice the thirst of this deadly snow? I believe in fair fight, and not a fight that is causing nothing but damage. There should be a treaty between two countries, and there should be a definite retreat as soon as possible. The geographical conditions of Siachin is unable enough to draw lines of the border, as one can in plain lands. Each soldier is like a gold coin of freedom, and gold is to be secured and not wasted anywhere. The biggest enemy up there is not indian army, but weather. The devastating, cruel and deadly cold weather, not a day pass and someone is injured or kiss death by the hands of the cruel climate. These are 150 coins in trouble, and thousands stay hault. Hault in the valley of death, and whatmore, the people in the politics yell for "Do More.” This war is nothing but insanity, and insanity have had its rough price at the cost of our brave soldiers over and over again!!!

جنّت کے پتے ، اسلامی ناولز ، اور میرا ردعمل

3 اپریل

مجھے معاف کر دو دوستو- بندہ بشر ہوں، اسی فاضل مصنفہ کے بارے میں تعریفی و توصیفی کلمات ،اور  آرٹیکل لکھ بیٹھا، اور اب بیٹھا سوچ رہا ہوں پچھتا رہا ہوں ، کے کیوں لکھے؟ مرے دماغ میں کیا فتور آیا تھا؟ مجھے ہوا کیا تھا؟ بہرحال میں بیحد سنجیدگی سے ان آرٹیکل کو انٹر نیٹ سے ہٹانے اور لا تعلقی کا اظھار کرنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہوں – لوگوں کی تحریر وقت کے ساتھ نکھرتی ہے، ان کی تحریر بگڑتی ہے، بکھرتی ہے، اور مزید روبہ زوال ہوتی جا رہی ہے

 

  • تو مس ” ش” کا فون آنا اک نیی سم کے ساتھ، میرا انکار کرنا ، ان کا اصرار کرنا کے جنّت کے پتے جو ہوا دینے لگے ہیں، انھیں پڑھ لوں، جیسے چہرہ محبوب کی کتاب پڑھتے ہیں، وہ بولے تو  باتوں سے پھول جھڑتے ہیں، وغیرہ … اب ناچار دل ناداں کو سمبھالا، پوچھا . کے اے دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟ اس مرض کی دوا کیا ہے؟ تو ناہنجار گستاخ ہو کر بولا، کے مس ” ش” کی آخری خوایش پوری کر، ریویو لکھ جنّت کے پتے پر، اور ثواب ادب حاصل کر، جیسے دیار نور میں اپنا مقام حاصل کر ، آن لاین لنک حاصل کر اور مطالعہ کر اور سرخرو ہو جا!!! بہرحال دل کے ہاتھوں مجبور ہیں، سو مان لی اس کی بات اور پڑھی کہانی اور آمادہ خودکشی ہوے حسب معمول، اور خود کو روکا حسب معمول کے جو کوے یار سے نکلے تو سوے دار چلے ، اور جو کہانی سے نکلے تو ناگہانی چلے … اگر اپ محسوس کرتے ہیں کے میں کچھ بہک سے گیا ہوں، ہوش و حواس میں نہیں ہوں، تو اپ بلکل غلط ہیں، میں کچھ نہیں، بہت  زیادہ بہک گیا ہوں ، کیوں ؟ تو اس کیوں کا جواب کہانی میں چھپا ہے ؟

پہلی بات تو یہ ہے کے جنّت کے پتے نام ہی غلط ہے، اسے ” جنّت کے شجر کے پتے” یا ” جنّت کے درخت کے پتے ” ہونا چاہیے کے یہی ثابت ہے،. مستعمل ہے اور رایج ہے— جنّت میں درخت ہیں، اور ان کا سایا زمین و آسمان کی لمبائی سے لمبا ہے، یہ سب ہم حدیث میں پڑھ چکے ہیں، مگر خود جنّت کے پتے ہیں؟ یہ نیی چیز ہے، شاید فاضل مصنفہ یہ بتانا چاہتی ہیں، کے جنّت کے پتے ہوتے ہیں، یعنی اچھی باتیں ، مگر یہ استعارہ بلکل ٹھیک نہیں بیٹھتا ، تو مرے نزدیک نام ہی غلط ہے، گو کے شکسپئیر نے کہا تھا، نام میں کیا رکھا ہے؟؟ پھول کو جس نام سے پکارو تو پھول ہی رہتا ہے، مگر چوں کے یہ کہانی مجھے پھول نہیں بلکے کانٹا لگی تو اس لیے نام میں ہی سب رکھا ہے، جب شروات ہی ٹھیک نہ ہو، اور آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟ 

  • ہاے، اک تیر سینے پے مارا کے  ہاے  ہاے کی طرح جب جنّت کے پتے کی دوسری قسط پڑھی، تو ایک ساتھ کی تیر ، بوریت کے ، کڑواہٹ کے ، سنے میں گھس گیے … دراصل اگر اپ کا ادبی ذوق تارڑ یا مفتی یا منٹو جیسے لوگوں کی تحریریں پڑھ پڑھ کر بنا ہو، تو قدرے شائستہ ادبی ذوق بن جاتا ہے، اور ایک علیحدہ ہی معیار بن جاتا ہے ، اور ایسی تحریر جو اس معیار پر پوری نہ اترے، دماغ اسی وقت رد کر دیتا ہے، جنّت کے پتے کے ساتھ بھی یہی ہوا … یہ کہانی مرے دماغ نے رد کر دی، پوری دوسری قسط میں عنوان ، یعنی غلط عنوان جنّت کے پتے سے متصل کوئی چیز نہ تھی — اب اگر آپ نے کوئی بھی اچھا ناول پڑھا ہو، جیسے راجہ گدھ ہو، راکھ ہو، آگ کا دریا ہو…تو اپ محسوس کریں گے کے ان شاندار ناول کو ایک چیز شاندار بناتی ہے، عنوان کا کہانی سے ربط، ہر لفظ جیسے عنوان کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے، راجہ گدھ میں ہر باب میں راجہ گدھ کی خصوصیت کا پرتو نظر آتا ہے، دنیا کے ہر اچھے ناول میں   یہ چیز ہوتی ہے اور ہر برے ناول میں یہ چیز بلکل نہیں ہوتی، جیسے کے جنّت کے پتے کی دوسری قسط بلکل ہی عنوان سے دور بھٹک گیئی، ہٹ گیئی، پوری قسط میں ہیروئن یعنی "حیا” کی ترکی کی سیر بتایی گی ہے، وہ مزاق مزاق میں ایک فارم بھرتے ہوے کہتی ہے، ” میں ڈرنک بھی کرتی ہو، سیگرٹ بھی پیتی ہو، اور کسی لڑکی کے بجایے کسی لڑکے کے ساتھ ہوسٹل میں کمرہ شیر ہو جایے تو کیا بات ہے …”  یاد رہے، یہ سب اسی ناول کے زیر اثر لکھا جا رہا ہے جس کا نام جنّت کے پتے ہے!!! مجھے تو یہ بات بلکل ہضم نہیں ہوئی؟ ناول اسلامی ، اور کہانی بیحد ماڈرن !
  • شاید یہی وجہہ ہے کے میں ” اسلام” کی تحقیق کیے بغیر اسلامی ناولز لکھنے کو ٹھیک نہیں سمجھھتا، جن لوگوں نے پچاس پچاس سال فقہ پڑھی، حدیث پڑھی، لاکھوں اسلامی کتب پڑھیں، تب جا کر وہ ایک اسلام کے اوپر کتاب لکھتے ہیں اور گھبراتے ہیں کے کہیں کوئی غلطی تو نہ ہو گیی ، امام غزالی ہوں یا رازی، امام ابو حنیفہ ہو یا امام جعفر صادق … یہ لوگ تھے اور ان جیسے ہوں گے کے جو اسلام کی صحیح روح پیش کر سکتے ہیں، مگر آج کل بچے بھی اس پر لکھنا شروع ہو گیے ہیں، عمر ٢٠ یا ٢٢ ہوتی ہے، اور دین کی خدمات کا ٹھیکہ ، خود سے ، لے لیتے ہیں ، خدارا ! ہمیں علما کی ضرورت ہے، کے جن کے پاس سند ہوتی ہے، جیسے ڈاکٹر اسرار تھے، یا ڈاکٹر طاہر قادری ہیں وغیرہ …. جو اسلام کی دین کی روح کو سمجھتے ہیں …|اردو ادب میں محض ایک نسیم حجازی تھے، کے جنہوں نے اسلامی ناول لکھے، اور تھیم رومانوی رکھی ، مگر ان کا بنیادی منظر اسلام کی ترویج تھا، اس وجہہ سے ان کا کوئی ہیرو یا ہیروئن بیہودہ حرکت نہ کرتا تھا، بلکے ولن ہی شباب و شراب کے رسیا دکھایے گیے تھے ، کیوں کے جو ہیرو کرتا ہے وہی عام لوگ بھی کرتے ہیں، کیا بلند کردار ہیرو تھے ان کے ناولز میں، طاہر بن یوسف، نعیم بدر بن مغیرہ ، یہ سب ایک مرد مومن کی عملی تفسیر تھے، تو بات دور نکل گی، اردو ادب میں حجازی کے علاوہ مجھے کوئی ایسا ادیب نظر نہ آیا کے جس نے صرف اسلامی ناولز لکھے ہوں ….تو، کامل ریسرچ کے بغیر، تجربے کے بغیر ، سند کے بغیر اس پر لکھنے والا دراصل خود اپنی تضحیک کر رہا ہوتا ہے ، اور کہانی میں جھول علیحدہ نمایاں ہو جاتے ہیں، جیسے اس کہانی میں ہوے…
  • دل تو بہت کچھ کہنے کو چاہ رہا ہے، جیسے اس ناول کی پہلی قسط پھر بہتر تھی، مگر دوسری میں حد ہی ختم ہوئی – دنیا میں کوئی خواجہ سرا بھی بہادر ہوتا ہے؟ ہوتا ہو گا، مگر اتنا کے پانچ پانچ لڑکوں کی پٹائی کرے ، ایک لڑکی پے عاشق ہو، اسے باجی بھی کہے اور عشق کا اظھار بھی کرے، اور وہ اصل میں ایک لڑکا ہو جو اس لڑکی کے عشق میں خواجہ سرا بنا ہو، مگر یہ کسی کو نہیں پتا کے وہ اس لڑکی میں کیا دیکھ کر اس قدر مجنوں ہوا، کہانی جب شروع ہوئی تو یہ سب ہو چکا تھا، کافی دلچسپ صورت حال ہے، ہے نا؟ کردار نگاری انتہائی نا پختہ ، مکالمے بےجان، کہانی بےمقصد پھیلی ہوئی، جہاں پر اضافے کی ضرورت ہے، وہاں اختصار !!! جیسے، جب ہیروئن استمبول آتی ہے، تو اسے بتایا جاتا ہے کے جو بھی یہاں آئیے وہ ” سلطان ابو ایوب انصاری” کے مزار پر جاتا ہے ….بس یہ کہ کر فاضل مصنفہ آگے بڑھ گیئی، اور اگلے مکالموں میں کچھ مزاق بھی اڑایا گیا ، جب کے یہاں پے  حضرت (مجھے سمجھ نہیں آیا ان کے لیے سلطان کیوں کہا گیا؟)  ابو ایوب انصاری کے بارے میں بتانا چاہیے تھا، مصنفہ کو …کے وہ صحابی رسول تھے، قصویٰ، یعنی حضور کی اونٹھنی،  ابو ایوب انصاری کے ہی گھر کے سامنے رکی تھی، اور حضور نے وہاں قییام کیا تھا، اور  ابو ایوب انصاری کو جب پتا چلا کے حضور نے کہا ہے کے جو قستنتنیہ یا استمبول کو فتح کرنے والے لشکر میں جایے گا تو جننتی ہو گا، تو  ابو ایوب انصاری اس میں شامل ہو گیے ، اور شہر کی فصیل کے بھر شہید ہوے، اور وہیں دفن کیا گیا …اور غریب وطن شہادت پایی اور آج ان کا مزار ایک بیحد متبرک مقام ہے، تو یہ سب باتیں فاضل مصنفہ نے کیوں نہیں کہیں؟ ؟؟؟ جبکے عنوان جنّت کے پتے تھا، تو کچھ تو بتانا چاہیے تھا مگر وہ بس ان کا نام لے کر آگے گزر گیئیں، یہی نا تجربہ کاری ہے، اور اس طرح کی اور بھی بہت چیزیں ہیں وغیرہ وغیرہ 
  • آخر میں یہ بات کے کیا ناول میں کوئی ایک اچھی چیز ہے ؟ جی ہاں ، ہے ! ناول لکھنے والی کا جذبہ اور نییت ! ان کی نییت اچھی ہے، جذبہ اچھا ہے، مگر تحریر کمزور ہونے کی وجہہ سے انصاف نا کر پاییں… اگر وہ اسلامی ناولز ابھی نا لکھیں، تو شاید اس سے بہتر لکھ سکتی ہیں، مگر ابھی تو بہت محنت کی ضرورت ہے …
  •  

تو جناب میں تو اب تقریباً توبہ تایب ہو چکا ہوں، کہانیاں  پڑھنے سے نہیں، مس ” ش” سے بات کرنے سے توبہ تایب ہو چکا ہوں 

 

Writen by Kashif Ali Abbas