Tag Archives: kashif ali abbas urdu writer

عشق خرابہ

8 جون

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid02Nys6hNWYwb4TBecmZweUHZ2nysVf8vkJRNLKfnmGTWF4cuLDFChXyi6SgTRNi5s2l&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=RUbZ1f

ہو جانے دے

11 مارچ

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid05AFXQ2ks4D2JmrfcuUao2KxL9LTmkZs7paBrCW1CGdKY3zK435oWzSHs9SJD7iELl&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=6aamW6

عشق ماضی

24 فروری

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid0n3jrrhY1mNQz9G5dQjePoBaNVNwm297QsEkfVbH7L7k2kmZ4FYi2PGRkL5B5xUhRl&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=RUbZ1f

رات میں

9 مئی

میری محبوبہ

28 اپریل

عشق کا بھوت ، مارو دس جوت

12 اپریل

ہاکس بے کی بپھری موجوں، طولانی لہروں سے گھرے سمندر میں جھاگ سا اٹھتا تھا – جیسے کسی سوانا باتھہ میں بھاپ کا جھاگ ہو- ایک دائرہ سا بنتا تھا ، جس دائرے میں نوکیلی چٹانیں بڑی شان سے سر اٹھاتی تھیں، نیلا آسمان اس نیلوں نیل سمندر میں ڈوب سا جاتا تھا- کچھ پرندے بے پروا اڑتے تھے، کچھ گھر کو جاتے تھے، ان کے شاندار پروں پر ڈھلتی شام کے سورج کی مدھم کرنیں منعکس ہوتی تھیں، پھسل جاتی تھیں اور ادھر ادھر بکھر کر ایک سنہری منظر تخلیق کرتی تھیں، چند آوارہ بادل جھومتے جھامتے مست ملنگ کی طرح ادھر ادھر بکھرے تھے-  اک تیز ہوا کی موجودگی  تھی، جو ان دونوں سے ٹکراتی تھی، وہ دونو ایک ابھری چٹان پر بیٹھے، نیچے سر پٹختے سمندر سے کافی اوپر، خاموش بیٹھے تھے – ان کی نظریں افق پر جمی ہوئی تھیں – ان کے چہرے سے ملال ٹپک رہا تھا، گویا اسقدر خوبصورت منظر کا ان پر کوئی اثر نہ تھا –  – –  —————– "میں خودکشی کر لیتا اگر حرام نہ ہوتی”  عاطف نے ایک گہری سانس کے اخراج کے بعد یہ جملہ ادا کیا، ساتھ بیٹھے اس کے یار غار جیسے بچپن کے دوست ، زید، نے اسے اچنبے سے دیکھا، اور دیکھتا ہی رہا – عاطف کی یہ حالت اس کو بیحد تقلیف دے رہی تھی – اسے سمجھ نہ آرہی تھی کے وہ اپنے دوست کے لیے کیا کرے ، وہ کچھ دیر عاطف کے چہرے کے زیر و بم دیکھتا رہا اور پھر کچھ سوچ کر بولا … ” چل ہمّت کر … یار، ایک لڑکی ہی ہے، کوئی بات نہیں ، ریلکس کر یار ، خدا کے لیے ”   ” زید جی، تسی نہیں سمجھ سکدے ” عاطف دھیرے سے بولا ” کدی وی نہیں ” آخری جملہ اس نے دل میں کہا تھا ، اور زید نے بےبسی سے اپنے دوست کی طرف دیکھا اور وہ سب کچھ ذھن میں دہرانے لگا جو عاطف نے اسے آج بتایا –  عاطف کرید کرید کر بتاتا رہا ، اور زید دل ہی دل میں حیران ہوتا رہا، وہ جانتا تھا کے عاطف کو لڑکی ، بلکے کوئی بھی لڑکی اس حال میں پہنچا نہیں سکتی تھی، لڑکیاں تو اس کے پیچھے بھاگتی تھیں، وہ ہمیشہ سے یہی منظر دیکھتا تھا، بچپن سے کالج اور پھر جاب کے زمانے تک عاطف کی مسحور کن پرسنالٹی ، دل موہ لینی والی باتیں اور سب سے بڑھ کر اس کی ذہانت لڑکیوں کے لیے سم قاتل تھی، وہ ہمیشہ سے جیتتا آیا تھا ، یہ اور بات ہے کے وہ بس جیت کی خوایش میں کسی لڑکی سے دوستی کرتا تھا، جب وہ ماں جاتی تھی تو عاطف کی دلچسپی ختم ہو جاتی تھی، اور وہ اس پھل کو چکھے بغیر ترک کر دیتا تھا — اور آج تک وہ ہمیشہ جیتتا آیا تھا ، سب لڑکیاں مان جاتی تھیں، زید کو سمجھ نہ آ رہا تھا کے ایسی کونسی لڑکی ہے جس نے عاطف کی یہ حالت کر دی؟ زید کو یاد آیا جب ایک امریکی لڑکی نے عاطف کی تصویریں اپنے کمرے میں لگا دیں، اور جب وہ پاکستان آنے کو بےچین تھی، جب اس نے ایک امریکی کالج میں خود سے عاطف کی فیس تک بھر دی تھی، مگر عاطف اپنی فطرت سے مجبور تھا، نہیں گیا … زید کے سامنے وہ تمام لڑکیاں آنے لگیں جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھیں مگر سب کو عاطف نے ریجیکٹ کر دیا تھا – زید جھنجلا اٹھا اور کھڑا ہو گیا  ” کہاں چلے ؟ عاطف نے حیران ہو کر پوچھا –  ” تو بکواس کر رہا ہے، یہ سب ڈرامہ ہے، یار لڑکی ذات تجھے بےبس نہیں کر سکتی، مجھے الو نہ بنا تیری باتیں ہضم نہیں ہو رہیں ” زید نے تنگ آ کر کہا ، اس کے چہرے سے بیزاری ٹپک رہی تھی –  ” اچھا؟” عاطف نے سنجیدگی سے کہا ” ذرا میری آنکھوں میں دیکھہ … یہ جھوٹ بول رہیں ہیں کیا؟ ” اور زید نے چند لمحے ، محویت سے اس کی آنکھوں میں دیکھا ، اور پھر چپکے سے نیچے ، عاطف کے ساتھ بیٹھ گیا –  ” آ گیا یقین ؟ ” عاطف کے پوچھنے پر زید نے اثبات میں سر ہلا دیا … "اس کا کوئی حل بتا دو ، بس مجھے کوئی حل بتا دو …. میں اس عشق کے بھوت سے تنگ آ چکا ہوں، اپنی زندگی کی پہلی ہار مجھ سے برداشت نہیں ہو رہے ، مذہبی ، روحانی، ذہنی، ساینسی، یار ہر طرح کا حل کر لیا ہے، سکون نہیں ملتا …زید، تجھے یاد ہے وہ کلام …” تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا ” بس میرا بھی یہی حال بےحال ہے … نہ میں نے اس لڑکی کو دیکھا ہے، نہ ملا ہوں، نہ آواز سنی ہے … کیا بکواس ہے ؟ حد ہے، یار …حد ہے میں تو …تم جانتے ہی ہو، میں اور کسی کے لیے اس قدر آگے چلا جاؤں؟ وہ بھی جس کو نہ دیکھا، نا آزمایا ، اور … لعنت ہو میری سوچ پر، یہ مجھے کیا ہو گیا ہے ؟ کیا مجھے ان سینکڑوں لڑکیوں کا دل توڑنے کی سزا ملی ہے ؟ امپاسیبل …” عاطف جوش میں ، جذبات میں بولتے بولتے سانس لینے کو رکا اور پھر اس کی ٹیپ کا رکارڈ بجنے لگا ” باقی باتیں چھوڑ… اب نہ کچھ کرنے کو دل چاہتا ہے، نہ کھانے کو نہ پینے کو نہ سونے کو نہ جاگنے کو … نہ جاب کرنے کو ، نہ لکھنے کو نہ پڑھنے کو …اف لعنت ہے یار…زندگی عذاب بن گی ہے … دل چاہتا ہے ہر ایک سے لڑوں ، مار کٹائی کروں، ہر ایک کو شوٹ کر دوں ، عجیب بےسکونی سی بےسکونی ہے ، ہر وقت اسی الو کی یاد ہے … میں نے لاکھ جتن کیے ،. اس سے نفرت کی ہر کوسش کر لی ، شادی کا دل چاہتا نہیں … میں کیا کروں ؟ یہ مجھے کس بات کی سزا مل رہی ہے ؟ میرا حال تو کسی روکھی سوکھی کھانے والے فقیر سے بھی بدتر ہو گیا ہے …میری انا کا بت پاش پاش ہو چکا ہے …میرا غرور ٹوٹ گیا ہے … لعنت ہے یار قسم سے لعنت ہے ایسی زندگی پے ”  زید نے اس کا شانہ تھپتھپایا ” عاطف … صبر سے کام لو… سب ٹھیک ہو جایے گا ” مگر عاطف کو تسلی دیتے وقت خود زید کی حالت یہ دیوانگی بھری باتیں سن کر عجیب سی ہو رہی تھی، اس کا دوست زندگی سے تنگ آ چکا تھا، اور وہ کچھ نہ کر سکتا تھا … ” عاطف ! میں جانتا ہوں ، جب وہ تجھے مل جایے گی  تم اس سے بھی بیزار ہو جاؤ گے ..ہیں نہ؟  ” نہیں یار، اس بار نہیں … مگر وہ نہیں ملے گی ، بہت پکّی ہے وہ، پوری مولوی ہے ” عاطف ہلکا سا ہنسا … ” اچھا، اس سے رابطہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ ” ” یار صرف ای میل ہے، باقی تم جانتے ہو میں جبر کا قایل نہیں … اگر کوئی مرے پاس نہیں آنا چاہتا تو میں کیسے اسے اپنا مان لوں …اور یار ایک بات اور وہ … وہ سنگل نہیں ہے ”  ” اوے…کیا بکواس کرتے ہو ؟ پاگل ہو گیے ہو کیا؟ ” زید غصّے سے چلایا … عاطف نے ندامت سے سر جھکا لیا … زید اب اسے بری طرح گھور رہا تھا، معاملہ بیحد سنگین تھا …اچانک اسے اپنے دوست کو بچانے کا ایک حل سوجھا… ” اوکے … مجھے اس کا میل اڈریس دو، میں اسے میل کر کے بتا دوں گا کے تمہارا کیا حال ہے ؟ شاید اس کا دل پسیج جایے”  ” نہیں… مجھے خیرات نہیں چاہیے … یہ میرا اور اس کا معاملہ ہے ، ہمارا ہی رہے تو بہتر ہے ”  زید نے یہ سن کر بال نوچتے ہوے کہا، ” تو پھر آخر کیا کروں؟ کیسے یہ سب ٹھیک ہو گا، یار خدا کے لیے … حقیقت کی طرف آو” عاطف نے کوئی جواب نہ دیا، وہ افق کی طرف دیکھنے لگا …اچانک زید فیصلہ کن انداز میں اٹھ کھڑا ہوا ” اوکے ، ایک حل ہے، یہ آخری حل ہے ”  ” سچ ؟” عاطف نے اشتیاق سے ، مسرت سے کہا … ” ہاں”زید نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا … ” خودکشی کر لو ”  "میں خودکشی کر لیتا اگر حرام نہ ہوتی” عاطف نے مضبوط لہجے میں کہا …  ” چلو یار نہیں تو نہ سہی ” زید نے نارمل لہجے میں کہا، اور عاطف بھی اٹھہ کھڑا ہوا، اور جیسے ہی عاطف نے جاتے جاتے ، اس چٹان پر سے ایک آخری نظر افق پے ڈالی تو اچانک اسے ایک دھچکا لگا، وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور سر کے بل کسی گولی کی رفتار سے نیچے موجود سمندر کی طرف گر گیا … اس کے ذھن میں صرف  ایک چیز تھی، ” اس کے دوست ، اس کے یار نے اسے دھکا دے دیا تھا” پانی سے ٹکراتے ساتھ ہی وہ جیسے گھپ اندھیرے میں ڈوب گیا … زید نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھے ” سوری دوست، مجھے معاف کر دینا ، مگر اب تم نے خودکشی نہیں کی … اس کے سوا کوئی حل  نہ تھا ” یہ کہ کر وہ واپس پلٹ گیا ..   جب وہ نیچے اپنی کار تک پہنچا تو اس نے مڑ کر ایک الوداعی نظر پھر اسی چٹان پر ڈالی جہاں وہ اور عاطف بیٹھے تھے…” خدا حافظ میرے  دوست … اب شاید تمھیں سکون مل جایے ” یہ کہ کر وہ جیسے ہی کار میں بیٹھنے لگا تو کار کا دروازہ نہ کھلا، اور اسے یاد آیا کے چابیاں تو عاطف کے پاس تھیں، اچانک ٹھک کی آواز پے اس نے دیکھا  تو عاطف فرنٹ سیٹ  پر بیٹھا، سگریٹ سلگایے، بھیگے بالوں کے ساتھ اسے مسکراتے ہوے دیکھ رہا تھا … ” تو .م ..تم زندہ؟ زید ٹوٹی پھوٹی زبان میں ہکلایا  جواب میں عاطف نے قہقہ لگایا ” مجھے تیراکی اتی ہے ، اور ہاں لکھ دی لعنت ہے تیرے حل پر …اب لفٹ لے کر آ جاییں گھر ، اور یاد رکھ میں نے نہ کبھی ہار مانی ہے نہ مانوں گا، اصل میں اس طرح کی باتیں کر کے دل روتا ہے تو شاعر کو جو تخلیق کرنے کے لیے خیال چایئے ہوتا ہے وہ مل جاتا ہے ، کھوتے کے کھر… میں تو صرف منظر بیان کر رہا تھا، اور افلاطون تو نے سچی مچی کا دھکا دے دیا، مجھے زندگی سے کوئی شکوہ نہیں ، اور وہ لڑکی تجھ سمیت جایے جہنم میں ” عاطف نے یہ کہ کر کار اس قدر تیزی سے بھگا دی، کے قریب کھڑا زید ، چغد بنا، دھول میں چھپ گیا

Written by K 🙂