Tag Archives: kashif ali abbas afsaanay

عشق کا معجزہ

30 جون

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid05jd4gBLpnK2vSBtUfGZ2gM3kjUTdTx8X9XsA4pVCFWqTZQRhAWerhTUohWv9hj5jl&id=100063911417142&sfnsn=scwspmo&mibextid=RUbZ1f

احمقوں کا نواب

17 اپریل

آرام ولا … ایک پراسایش، پر تعییش اور شاندار گھر تھا ، بلکے محل تھا…  دیوقامت گیٹ، جس کی   اونچی   اونچی  فصیل پر نوکیلی ڈنڈیاں ، چاقو سی تیز، نصب تھیں، جن سے پیوستہ روشنی کے بلب اسے مزید شاندار بناتے تھے … گیٹ کے ساتھ ہی ایک باکس نما کمرہ سا تھا، جس کے اوپر جلی الفاظ میں ، ” خبردار،  یہاں اپنی شناخت کروئیں” درج تھا- دیوار پر پھل بوٹے، اور آرٹ کی تصویر بڑی مہارت سےبنایی گیئیں تھیں … پہلی نظر میں یہ محل کسی  بادشاہ یا نواب کی رہایش لگتا تھا، اور یہاں کے مالک کا نام ، گیٹ پر، دیوار پر،  باہر موجود درخت پر، کوڑے دان پر غرض کے ہر جگہ لکھا تھا، جس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا تھا ، ” نواب آرام دین " … مگر اس نام کے ساتھ ہر جگہ ایک چیز اور لکھی تھی ، جو منچلوں نے لکھی تھی…” احمقوں کا نواب ” اور ” احمقوں کا بادشاہ” وغیرہ جیسے تہنیتی پیغامات بھی پڑھے جا سکتے تھے … واللہ عالم بالصواب

 

گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی، ایک وسیح و عریض لان، سر سبز گھاس جو کے نفاست سے کٹی ہو، گیراج ، اور چند رنگ برنگی کرسیاں جو لان میں سلیقے سے رکھی ہیں، نظر میں آ جاتے تھے – گیراج سے ملحقہ، شاندار گھر تھا ، جس کے ایک ایک انچ سے ظاہر ہوتا ہے کے یہاں دل کھول کر پیسا لگایا گیا تھا  … اچانک گیٹ پر بیل بجتی ہے ، نواب آرام اپنے ملازم کے ساتھ بھاگتا بھاگتا باہر آتا ہے … اور تھوڑی دیر بعد ایک گرانڈیل بھونکتا  کتا ان کے پیچھے بھاگتا نظر اتا ہے ، نواب آرام با آواز بلند اپنے ملازم اور اس کتے کی شان میں گالیاں بک رہا ہے ، تھوڑی جدوجہد کے بعد کتے پر قابو پا لیا جاتا ہے ، نواب آرام اس دوران لان میں پہنچ چکا ہے، اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے . ” تم، ہا…یو چمن … تم اس ڈاگ  کو باندھ نہیں سکنے کا؟  یہ روز ہم کو پڑتا ہے ، اگر کسی دن کاٹ واٹ لیا، تو پیسا تم دے گا ٹیکے کا ؟  ”

 

چمن دل ہی دل میں ہنسا، مگر بظاھر شرمندگی سے بولا، ” معافی چاہتا ہوں حضور، اصل میں یہ بل ٹرئر ایسے ہی ہوتے ہیں، مالک کے سوا ہر ایک کو پڑجاتے ہیں حضور اور یہ سمجھتا ہے کے اس کا مالک میں ہوں”

 

” واٹ نانسینس !” نواب نے چمن کو کرسی پر پڑا گلاس دے مارا ، جو کے چمن پھرتیلا ہونے کی وجہہ سے صاف بچا گیا ” یو راسکل، تم مالک کیسے ہوا؟ ہم نے پیسا دیا، روز اس ڈاگ پر اتنا پیسا لگایا، اور مالک تم ہو، ہم نواب ہے، کوئی شکل سے موچی لگتا ہے تم کو، چریا ہے تم …یہ ڈاگ تم کو مالک کیوں سمجھنے کا؟ ٹیل می، چمن ”

 

چمن نے بیحد عاجزی سے عرض کیا، ” حضور غلطی میری نہیں، اس کا  خیال میں رکھتا ہوں، کھانا ، سیر کروانا..تو یہ مجھ سے ہل گیا ہے اور ”

 

نواب آرام نے لفظ ہل پر چونک کر اس کی بات کاٹی ” ویل ، یہ ہل کیا ہے؟ یو سٹوپڈ ”

” سرکار، ہل مطلب مجھ سے سیٹ ہے، مطلب میں اور ڈاگ فرینڈ فرینڈ  ” چمن نے دانت نکالتے ہوے  انگریزی جھاڑ دی،

” ڈاگ تم سے سیٹ ہے ؟  یو چیٹر ، اسے ہم سے سیٹ کرنے کا …خود سے ان سیٹ کرو، یہ ڈاگ ہم سے فرینڈشپ کرے ” نواب آرام بیحد جوش میں بولا، اس کی توند کسی غبارے کی طرح پچک رہی تھی، اسے ابھی تک سانس چڑھا ہوا تھا ، اور وہ شکوے والی نظروں سے اپنے ڈاگ کو دیکھ رہا تھا، جسے چمن پکڑے کھڑا تھا-

 

” جو حکم سرکار … مگر اس سے پہلے بھی ، اگر آپ کو یاد ہو ” چمن نے  قصدن بات ادھوری چھوڑ دی ، جس پر نواب نے اسے گھورا” ویل ویل ! ہمیں آل دا  وے یاد ہے …فورٹین ٹیکاز لگوایا تھا، اس ڈاگ کی وجہہ سے ، چلو پھر کبھی فرینڈ شپ کرنے کا اس سے … ابھی چھٹی کرو ، اور وہ کللو کہاں گیا؟ اس باسٹرڈ کو کہو ، گیٹ پے دیکھے ، کوئی گیسٹ آنے کو سکنا ہے ”  بیل پھر بجتی ہے ، اور ایک بیحد خوبصورت نوجوان گھر سے نکلتا ہے ، جسے دیکھتے ہی نواب چللاتا ہے ، ” کللو ، یو راسکل، کدھر مر جاتا ہے ” کللو تیز تیز قدم اٹھاتا گیٹ تک جاتا  ہے، ایک چھوٹا سا  دروازہ کھولتا ہے، اور اس باکس نما کمرے میں جاتا ہے ، اور ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہے … کللو کے سامنے ایک کالا  سیاہ، دھت کالا شخص کھڑا ہوتا ہے جس پر ” کالا وے کالا ، میرا کالا ہے دلدار ” جیسا گانا فٹ بیٹھتا ہے … کللو پٹھان ہے … سو مسکرا کر پوچھتا ہے ” خو! اتنا کالی ہو تم ، کون ہو تم؟ ”

 

” ترا پیو ہاں کنجرا! دروازہ کھول، یہ مرے انکل کا گھر ہے، ایی سمجھ ، ملازم پیشہ لوگ ” وہ کالا تو جیسے پھٹ پڑا

 

یہ شاندار کلمات سن کر، خاص طور پر یہ سن کر کے وہ نواب صاحب کا رشتے دار تھا، کللو کی مسکراہٹ ، گدھے کے سر پر سینگ کی طرح غایب ہو چکی تھی، اور وہ کسی فلسفے میں منہمک فلاسفر کی طرح بیحد سنجیدہ ہو چکا تھا – ” معاف کر دو سار ” کللو ہمیسشہ سر کو سار کہتا تھا، یہ کہ کر اس نے دروازہ کھولنے والا بٹن پریس کیا اور وہ شخص اندر آ گیا ہنوز کللو کو گھورتے ہوے…

” واو ” نواب اسے دیکھتے ہوے خوشی سے اچھل پڑا ، ” مائی ڈئیر چٹا…کم ان کم ان یہ تمہارا گھر سمجھنے کا ” نواب بےاختیار اس کی طرف بھاگا، جب کے کللو اور چمن اس قدر کالے شخص کو ” چٹا” یعنی سفید پکارے جانے پر اپنی ہنسی دبا رہے تھے ، وہ شخص بیحد کالا تھا ..

 

” انکل ، مائی ڈئیر انکل ” چٹا بہت گرم جوشی سے نواب آرام سے گلے ملا ، ” انکل جی! میں افریقہ  تو آیا وان ، تے تھوڑا کلر خراب ہو گیا سی، تے یہ ” یہ کہ کر چٹا نے غصّے سے کللو کی طرف اشارہ کیا جو چمن کی ناتواں کمر کے پیچھے چھپنے کی کوسش کر رہا تھا ” اے باندر نہ بچہ، اس نے  مینوں سدھا سدھا کالا ہی کہ دتا ( اس سے تو مجھے کالا ہی کہ دیا )” نواب نے پیار سے اس کا چہرہ تھپتھپایا ” نو نو، ڈونٹ وری مائی بواۓ… اس کللو کو میں بعد میں دیکھ سکنے کا! ابھی تم تھکا ہے … ریسٹ کرو، – دل آرام ، بیٹا دل آرام ، کم ہیئر” نواب نے آواز دی ، اور ایک ٢٠ سال کی لڑکی ، برا سا منہ  بناتی باہر نکلی …  وہ بیحد حسین تھی، اور فراخ پیشانی سے ذہانت مترشح تھی -چٹا منہ کھولے اسے یوں دیکھ رہا تھا، جیسے بچہ ایس کریم کو دیکھتا ہے … دل آرام جب قریب ایی ، تو چٹا، نواب کے کچھ کہنے سے پہلے ہی آگے بڑھا اور جلدی سے دل آرام کا ہاتھ تھامتے ہوے بولا، ” میں چٹا، آپ کا منگیتررررررررر ” جیسے ہی وہ منگیتر پر پہنچا تو دل آرام نے ہاتھ چھڑاتے ہوے اس قدر زور کا چانٹا اس کے منہ پر مارا، کے لفظ منگیتر حلق میں اٹک گیا اب وہ ٹک ٹک دیدم نہ کشیدم چپ چاپ کھڑا دیکھ رہا تھا، نواب آرام نے بڑے آرام سے کہا ” ویل ، یو ار سو فاسٹ … دل آرام کو ٹچ سے چڑ ہے ، یہ ایک ڈاکٹر ہے اسے ہر چیز میں جیرمز نظر آنے کا، آئیندہ ٹچ نہ کرنے کا ” اور اس وقت لگ رہا تھا، کے نواب آرام سمیت ہر شخص اس گونج دارتھپڑ سے لطف اندوز ہوا تھا ، ظاہر ہے تھپڑ کھانے  والے شخص کے علاوہ…

 

” ڈڈ” دل آرام نے نواب کو مخاطب کیا اور نواب نے اسے گھورتے ہوے تصحیح کی ”  ڈڈ- نہیں بولنے کا یو سلی چائلڈ ، ڈیڈ بولو ”

” ہاں ہاں وہی، تو میں اس بلیک بیوٹی سے کبھی شادی نہیں کروں گی، جسٹ لک  ایٹ ھم… پلیز  ڈڈ ” دل آرام نے جذباتی لہجے میں کہا، اور اچانک ہی کللو کی طرف اشارہ کیا ” اس سے اچھا تو یہ کللو ہے، گورا  چٹا”

”  چٹا  تے میں وان، تے سن کڑیے، یہ بچپن کی منگ ہے، کیسے دا پیو وی نی توڑ سکدا ”  چٹا سلطان راہی سٹایل میں بولا اور دل آرام نے یہ سن کر جارحانہ نظروں میں اس کی طرف دیکھا، اورچٹا کو چند لمحوں پہلا تھپڑ یاد آ گیا اور وہ کچھ سہم کر اپنی جگہ دبک سا گیا  . جب کے اپنا نام لیے جانے پر کللو کے چہرے سے ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک رنگ جا رہا تھا – نواب نے دل آرام کو نظروں ہی نظروں میں خاموش ہو جانے کا کہا تو وہ پیر پٹختی اندر چلی گیی

” ویل ، اندر آؤ ، کم ان چٹا …یہ بتاؤ ہمارا دوست، تمہارا فادر وٹا ، کیسا ہے؟ نواب نے اندر جاتے ہوے، اس سے پوچھا

” ابّا جی، چنگے نے ”

 

” گڈ گڈ …چلو ابھی آرام کرنے کا … ایوننگ میں ملیں گے ..اوکے باے ” نواب یہ کہتا واپس باہر آ گیا ، اور وہاں چمن کیاری صاف کر رہا تھا،  کللو اپنے کواٹر میں تھا، اور نواب نے بل ٹرئر کتے کو اپنے سامنے ، نوّے کے زاویہ پر دیکھا، اس سے پہلے کے نواب حرکت بھی کرتا، کتے نے چھلانگ لگایی اور نواب آرام کا ٹینٹوا آرام سے دبوچ لیا ،  ” بچاؤ بچاؤ، و راسکلز …یہ ڈاگ پھر..پکڑ لیا،  نو… ” جب تک بدحواس کللو اور چمن اس تک پہنچے ، نواب کے منہ سے یہ ہی نکل رہا تھا ” فورٹین ٹیکاز مور …”

"فورٹین ٹیکاز مور

 

Written by Kashif Ali Abbas

 

(Ep: 1 Continued )

عشق کا بھوت ، مارو دس جوت

12 اپریل

ہاکس بے کی بپھری موجوں، طولانی لہروں سے گھرے سمندر میں جھاگ سا اٹھتا تھا – جیسے کسی سوانا باتھہ میں بھاپ کا جھاگ ہو- ایک دائرہ سا بنتا تھا ، جس دائرے میں نوکیلی چٹانیں بڑی شان سے سر اٹھاتی تھیں، نیلا آسمان اس نیلوں نیل سمندر میں ڈوب سا جاتا تھا- کچھ پرندے بے پروا اڑتے تھے، کچھ گھر کو جاتے تھے، ان کے شاندار پروں پر ڈھلتی شام کے سورج کی مدھم کرنیں منعکس ہوتی تھیں، پھسل جاتی تھیں اور ادھر ادھر بکھر کر ایک سنہری منظر تخلیق کرتی تھیں، چند آوارہ بادل جھومتے جھامتے مست ملنگ کی طرح ادھر ادھر بکھرے تھے-  اک تیز ہوا کی موجودگی  تھی، جو ان دونوں سے ٹکراتی تھی، وہ دونو ایک ابھری چٹان پر بیٹھے، نیچے سر پٹختے سمندر سے کافی اوپر، خاموش بیٹھے تھے – ان کی نظریں افق پر جمی ہوئی تھیں – ان کے چہرے سے ملال ٹپک رہا تھا، گویا اسقدر خوبصورت منظر کا ان پر کوئی اثر نہ تھا –  – –  —————– "میں خودکشی کر لیتا اگر حرام نہ ہوتی”  عاطف نے ایک گہری سانس کے اخراج کے بعد یہ جملہ ادا کیا، ساتھ بیٹھے اس کے یار غار جیسے بچپن کے دوست ، زید، نے اسے اچنبے سے دیکھا، اور دیکھتا ہی رہا – عاطف کی یہ حالت اس کو بیحد تقلیف دے رہی تھی – اسے سمجھ نہ آرہی تھی کے وہ اپنے دوست کے لیے کیا کرے ، وہ کچھ دیر عاطف کے چہرے کے زیر و بم دیکھتا رہا اور پھر کچھ سوچ کر بولا … ” چل ہمّت کر … یار، ایک لڑکی ہی ہے، کوئی بات نہیں ، ریلکس کر یار ، خدا کے لیے ”   ” زید جی، تسی نہیں سمجھ سکدے ” عاطف دھیرے سے بولا ” کدی وی نہیں ” آخری جملہ اس نے دل میں کہا تھا ، اور زید نے بےبسی سے اپنے دوست کی طرف دیکھا اور وہ سب کچھ ذھن میں دہرانے لگا جو عاطف نے اسے آج بتایا –  عاطف کرید کرید کر بتاتا رہا ، اور زید دل ہی دل میں حیران ہوتا رہا، وہ جانتا تھا کے عاطف کو لڑکی ، بلکے کوئی بھی لڑکی اس حال میں پہنچا نہیں سکتی تھی، لڑکیاں تو اس کے پیچھے بھاگتی تھیں، وہ ہمیشہ سے یہی منظر دیکھتا تھا، بچپن سے کالج اور پھر جاب کے زمانے تک عاطف کی مسحور کن پرسنالٹی ، دل موہ لینی والی باتیں اور سب سے بڑھ کر اس کی ذہانت لڑکیوں کے لیے سم قاتل تھی، وہ ہمیشہ سے جیتتا آیا تھا ، یہ اور بات ہے کے وہ بس جیت کی خوایش میں کسی لڑکی سے دوستی کرتا تھا، جب وہ ماں جاتی تھی تو عاطف کی دلچسپی ختم ہو جاتی تھی، اور وہ اس پھل کو چکھے بغیر ترک کر دیتا تھا — اور آج تک وہ ہمیشہ جیتتا آیا تھا ، سب لڑکیاں مان جاتی تھیں، زید کو سمجھ نہ آ رہا تھا کے ایسی کونسی لڑکی ہے جس نے عاطف کی یہ حالت کر دی؟ زید کو یاد آیا جب ایک امریکی لڑکی نے عاطف کی تصویریں اپنے کمرے میں لگا دیں، اور جب وہ پاکستان آنے کو بےچین تھی، جب اس نے ایک امریکی کالج میں خود سے عاطف کی فیس تک بھر دی تھی، مگر عاطف اپنی فطرت سے مجبور تھا، نہیں گیا … زید کے سامنے وہ تمام لڑکیاں آنے لگیں جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھیں مگر سب کو عاطف نے ریجیکٹ کر دیا تھا – زید جھنجلا اٹھا اور کھڑا ہو گیا  ” کہاں چلے ؟ عاطف نے حیران ہو کر پوچھا –  ” تو بکواس کر رہا ہے، یہ سب ڈرامہ ہے، یار لڑکی ذات تجھے بےبس نہیں کر سکتی، مجھے الو نہ بنا تیری باتیں ہضم نہیں ہو رہیں ” زید نے تنگ آ کر کہا ، اس کے چہرے سے بیزاری ٹپک رہی تھی –  ” اچھا؟” عاطف نے سنجیدگی سے کہا ” ذرا میری آنکھوں میں دیکھہ … یہ جھوٹ بول رہیں ہیں کیا؟ ” اور زید نے چند لمحے ، محویت سے اس کی آنکھوں میں دیکھا ، اور پھر چپکے سے نیچے ، عاطف کے ساتھ بیٹھ گیا –  ” آ گیا یقین ؟ ” عاطف کے پوچھنے پر زید نے اثبات میں سر ہلا دیا … "اس کا کوئی حل بتا دو ، بس مجھے کوئی حل بتا دو …. میں اس عشق کے بھوت سے تنگ آ چکا ہوں، اپنی زندگی کی پہلی ہار مجھ سے برداشت نہیں ہو رہے ، مذہبی ، روحانی، ذہنی، ساینسی، یار ہر طرح کا حل کر لیا ہے، سکون نہیں ملتا …زید، تجھے یاد ہے وہ کلام …” تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا ” بس میرا بھی یہی حال بےحال ہے … نہ میں نے اس لڑکی کو دیکھا ہے، نہ ملا ہوں، نہ آواز سنی ہے … کیا بکواس ہے ؟ حد ہے، یار …حد ہے میں تو …تم جانتے ہی ہو، میں اور کسی کے لیے اس قدر آگے چلا جاؤں؟ وہ بھی جس کو نہ دیکھا، نا آزمایا ، اور … لعنت ہو میری سوچ پر، یہ مجھے کیا ہو گیا ہے ؟ کیا مجھے ان سینکڑوں لڑکیوں کا دل توڑنے کی سزا ملی ہے ؟ امپاسیبل …” عاطف جوش میں ، جذبات میں بولتے بولتے سانس لینے کو رکا اور پھر اس کی ٹیپ کا رکارڈ بجنے لگا ” باقی باتیں چھوڑ… اب نہ کچھ کرنے کو دل چاہتا ہے، نہ کھانے کو نہ پینے کو نہ سونے کو نہ جاگنے کو … نہ جاب کرنے کو ، نہ لکھنے کو نہ پڑھنے کو …اف لعنت ہے یار…زندگی عذاب بن گی ہے … دل چاہتا ہے ہر ایک سے لڑوں ، مار کٹائی کروں، ہر ایک کو شوٹ کر دوں ، عجیب بےسکونی سی بےسکونی ہے ، ہر وقت اسی الو کی یاد ہے … میں نے لاکھ جتن کیے ،. اس سے نفرت کی ہر کوسش کر لی ، شادی کا دل چاہتا نہیں … میں کیا کروں ؟ یہ مجھے کس بات کی سزا مل رہی ہے ؟ میرا حال تو کسی روکھی سوکھی کھانے والے فقیر سے بھی بدتر ہو گیا ہے …میری انا کا بت پاش پاش ہو چکا ہے …میرا غرور ٹوٹ گیا ہے … لعنت ہے یار قسم سے لعنت ہے ایسی زندگی پے ”  زید نے اس کا شانہ تھپتھپایا ” عاطف … صبر سے کام لو… سب ٹھیک ہو جایے گا ” مگر عاطف کو تسلی دیتے وقت خود زید کی حالت یہ دیوانگی بھری باتیں سن کر عجیب سی ہو رہی تھی، اس کا دوست زندگی سے تنگ آ چکا تھا، اور وہ کچھ نہ کر سکتا تھا … ” عاطف ! میں جانتا ہوں ، جب وہ تجھے مل جایے گی  تم اس سے بھی بیزار ہو جاؤ گے ..ہیں نہ؟  ” نہیں یار، اس بار نہیں … مگر وہ نہیں ملے گی ، بہت پکّی ہے وہ، پوری مولوی ہے ” عاطف ہلکا سا ہنسا … ” اچھا، اس سے رابطہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ ” ” یار صرف ای میل ہے، باقی تم جانتے ہو میں جبر کا قایل نہیں … اگر کوئی مرے پاس نہیں آنا چاہتا تو میں کیسے اسے اپنا مان لوں …اور یار ایک بات اور وہ … وہ سنگل نہیں ہے ”  ” اوے…کیا بکواس کرتے ہو ؟ پاگل ہو گیے ہو کیا؟ ” زید غصّے سے چلایا … عاطف نے ندامت سے سر جھکا لیا … زید اب اسے بری طرح گھور رہا تھا، معاملہ بیحد سنگین تھا …اچانک اسے اپنے دوست کو بچانے کا ایک حل سوجھا… ” اوکے … مجھے اس کا میل اڈریس دو، میں اسے میل کر کے بتا دوں گا کے تمہارا کیا حال ہے ؟ شاید اس کا دل پسیج جایے”  ” نہیں… مجھے خیرات نہیں چاہیے … یہ میرا اور اس کا معاملہ ہے ، ہمارا ہی رہے تو بہتر ہے ”  زید نے یہ سن کر بال نوچتے ہوے کہا، ” تو پھر آخر کیا کروں؟ کیسے یہ سب ٹھیک ہو گا، یار خدا کے لیے … حقیقت کی طرف آو” عاطف نے کوئی جواب نہ دیا، وہ افق کی طرف دیکھنے لگا …اچانک زید فیصلہ کن انداز میں اٹھ کھڑا ہوا ” اوکے ، ایک حل ہے، یہ آخری حل ہے ”  ” سچ ؟” عاطف نے اشتیاق سے ، مسرت سے کہا … ” ہاں”زید نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا … ” خودکشی کر لو ”  "میں خودکشی کر لیتا اگر حرام نہ ہوتی” عاطف نے مضبوط لہجے میں کہا …  ” چلو یار نہیں تو نہ سہی ” زید نے نارمل لہجے میں کہا، اور عاطف بھی اٹھہ کھڑا ہوا، اور جیسے ہی عاطف نے جاتے جاتے ، اس چٹان پر سے ایک آخری نظر افق پے ڈالی تو اچانک اسے ایک دھچکا لگا، وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور سر کے بل کسی گولی کی رفتار سے نیچے موجود سمندر کی طرف گر گیا … اس کے ذھن میں صرف  ایک چیز تھی، ” اس کے دوست ، اس کے یار نے اسے دھکا دے دیا تھا” پانی سے ٹکراتے ساتھ ہی وہ جیسے گھپ اندھیرے میں ڈوب گیا … زید نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھے ” سوری دوست، مجھے معاف کر دینا ، مگر اب تم نے خودکشی نہیں کی … اس کے سوا کوئی حل  نہ تھا ” یہ کہ کر وہ واپس پلٹ گیا ..   جب وہ نیچے اپنی کار تک پہنچا تو اس نے مڑ کر ایک الوداعی نظر پھر اسی چٹان پر ڈالی جہاں وہ اور عاطف بیٹھے تھے…” خدا حافظ میرے  دوست … اب شاید تمھیں سکون مل جایے ” یہ کہ کر وہ جیسے ہی کار میں بیٹھنے لگا تو کار کا دروازہ نہ کھلا، اور اسے یاد آیا کے چابیاں تو عاطف کے پاس تھیں، اچانک ٹھک کی آواز پے اس نے دیکھا  تو عاطف فرنٹ سیٹ  پر بیٹھا، سگریٹ سلگایے، بھیگے بالوں کے ساتھ اسے مسکراتے ہوے دیکھ رہا تھا … ” تو .م ..تم زندہ؟ زید ٹوٹی پھوٹی زبان میں ہکلایا  جواب میں عاطف نے قہقہ لگایا ” مجھے تیراکی اتی ہے ، اور ہاں لکھ دی لعنت ہے تیرے حل پر …اب لفٹ لے کر آ جاییں گھر ، اور یاد رکھ میں نے نہ کبھی ہار مانی ہے نہ مانوں گا، اصل میں اس طرح کی باتیں کر کے دل روتا ہے تو شاعر کو جو تخلیق کرنے کے لیے خیال چایئے ہوتا ہے وہ مل جاتا ہے ، کھوتے کے کھر… میں تو صرف منظر بیان کر رہا تھا، اور افلاطون تو نے سچی مچی کا دھکا دے دیا، مجھے زندگی سے کوئی شکوہ نہیں ، اور وہ لڑکی تجھ سمیت جایے جہنم میں ” عاطف نے یہ کہ کر کار اس قدر تیزی سے بھگا دی، کے قریب کھڑا زید ، چغد بنا، دھول میں چھپ گیا

Written by K 🙂